سوال :
محترم مفتی صاحب ! کیا نکاح پڑھانے والے قاضی صاحب اسی نکاح کے شاھد بن سکتے ہیں؟
(المستفتی : شبیر انصاری، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح کے صحیح ہونے کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہ ہونا شرط ہے، نیز ان گواہوں کا مسلمان، عاقل، بالغ اور مجلسِ نکاح میں موجود ہونا لازم ہوتا ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : وہ عورتیں زنا کرنے والی ہیں جو گواہوں کے بغیر نکاح کرلیتی ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں نکاح پڑھانے والا اگر لڑکی یا لڑکے کی طرف سے کسی کا وکیل نہیں ہے تو وہ خود بھی گواہ بن سکتا ہے، اس لیے کہ نکاح خواں صرف معلم ہوتا ہے عاقد یا وکیل نہیں ہوتا۔
عن ابن عباسؓ، أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، قال: البغایا اللاتي ینکحن أنفسہن بغیر بینۃ۔ (سنن الترمذي، کتاب النکاح، باب ماجاء لانکاح إلا ببینۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۱۰، دارالسلام رقم : ۱۱۰۳)
عن عمران بن حصین، أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لانکاح إلا بولي، وشاہدي عدل۔ (المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۱۸/۱۴۲، رقم:۲۹۹)
ولاینعقد نکاح المسلمین إلابحضور شاہدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل، و امرأ تین۔(ہدایۃ، کتاب النکاح : ۲/۳۰۶)
والأصل عندنا أن كل من ملك قبول النكاح بولاية نفسه انعقد بحضرته. قوله: (والأصل عندنا إلخ) عبارة النهر قال الإسبيجابي: والأصل أن كل من صلح أن يكون وليا فيه بولاية نفسه صلح أن يكون شاهدا فيه، وقولنا بولاية نفسه لإخراج المكاتب فإنه، وإن ملك تزويج أمته لكن لا بولاية نفسه بل بما استفاده من المولى. اهـ. وهذا يقتضي عدم انعقاده بالمحجور عليه ولم أره ۔ (الدر المختار مع رد المحتار : ٣/٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 شوال المکرم 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں