*باسی کھانا کھانے کا شرعی حکم*
سوال :
مفتی صاحب! گھروں میں بچنے والے باسی کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی باسی کھانا نہیں کھایا اس لیے ہمیں بھی نہیں کھانا چاہئے۔ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا مطلب کہ کھانا اتنا ہوتا ہی نہیں تھا کہ دوسرے دن کے لئے محفوظ کیا جاتا۔ برائے مہربانی اس تعلق سے وضاحت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شمائل ترمذی میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جَو کی روٹی کبھی نہیں بچتی تھی۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ خصائل نبوی میں فائدہ تحریر فرماتے ہیں، یعنی جو کی روٹی اگر کبھی پکتی تھی تو وہ مقدار میں اتنی ہوتی ہی نہیں تھی کہ بچتی، اس لیے کہ پیٹ بھرنے کو بھی کافی نہیں ہوتی تھی۔ (خصائل نبوی : ۸۵)
البتہ بعض روایات میں آپ کا باسی چربی جو کی روٹی کے ساتھ تناول فرمانا ثابت ہے۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ جو کی روٹی اور کئی دن کی باسی پُرانی چکنائی کی دعوت کی جاتی۔ تو آپ ﷺ (اس کو بھی بے تکلف) قبول فرما لیتے۔ (شمائل ترمذی)
معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور آپ کو کہی گئی بات بالکل بھی درست نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باسی کھانا تناول نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو باسی کھانا بھی میسر نہیں تھا، اگر ہوتا تو آپ ضرور تناول فرماتے۔ لہٰذا باسی کھانا کھانے کو ناجائز یا خلافِ سنت سمجھنا قطعاً درست نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی باسی کھانا مُضر صحت ہوتو ظاہر ہے اس کے کھانے سے احتراز کیا جائے گا۔
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي بُکَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ يَقُولُ مَا کَانَ يَفْضُلُ عَنِ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم خُبْزُ الشَّعِيرِ۔ (شمائل ترمذی)
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی الْکُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم يُدْعَی إِلَی خُبْزِ الشَّعِيرِ وَالإِهَالَةِ السَّنِخَةِ فَيُجِيبُ وَلَقَدْ کَانَ لَهُ دِرْعٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ فَمَا وَجَدَ مَا يَفُکُّهَا حَتَّی مَاتَ۔ (شمائل ترمذی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 رمضان المبارک 1441
جزاک اللّہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں