سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں سود کی رقم تقریباً بیس ہزار روپے جمع ہے۔ کیا ہم اس رقم سے موجودہ حالات میں مستحقین کو راشن دے سکتے ہیں؟ کیا اسے مسجد کے طہارت خانے اور بیت الخلاء میں استعمال کرنا چاہیے؟ برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : انصاری محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بینک اکاؤنٹ خواہ مسجد کا ہو اس میں جمع شدہ رقم پر ملنے والی سود کی رقم کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، یہ ممکن نہ ہوتو بلا نیتِ ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا چاہئے۔
اسی طرح بینک کے سود کی رقم سے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی (اگر مسجد پر اس طرح کا کوئی ٹیکس لاگو ہوتا ہو) کی ادائیگی کرنے کی علماء نے گنجائش دی ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں غیرواجبی اور ظالمانہ ٹیکس ہیں، اور چونکہ بینکوں کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔ جب سود کی رقم انکم ٹیکس میں دی جائے گی تو وہ اسی کے رب المال (مالک) کی طرف لوٹے گی۔ اس کے علاوہ سود کی رقم کا اور کوئی مصرف نہیں ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مسجد کے طہارت خانے اور بیت الخلاء کی تعمیر سودی رقم سے ہی کی جائے گی، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ طہارت خانے اور بیت الخلاء ضروریاتِ مسجد میں شامل ہیں، لہٰذا اس کی تعمیر عطیات کی رقم سے ہی کی جائے گی، اس کی تعمیر میں صدقاتِ واجبہ، زکوٰۃ، سود وغیرہ کی رقومات لگانا جائز نہیں۔
صورتِ مسئولہ میں مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں جو سودی رقم جمع ہے، اس سے راشن خرید کر یا نقد رقم سے ہی مستحقین زکوٰۃ مسلمانوں اور غریب غیرمسلموں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ بلکہ موجودہ حالات اس کے لیے زیادہ بہتر ہیں کہ یہ رقم اس مد میں خرچ کی جائے۔ نیز بینکوں کی پابندیوں کی وجہ سے اگر فوری طور پر یہ رقم اکاؤنٹ سے نہ نکالی جاسکے تو اتنی رقم کسی سے قرض لے کر مذکورہ مصرف میں خرچ کردی جائے، اور بعد میں جب یہ رقم نکل جائے تو قرض واپس کردیا جائے۔
لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إن تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي ۶/۳۸۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمدعامرعثمانی ملی
16 رمضان المبارک 1441
Masha allah
جواب دیںحذف کریں