جمعرات، 30 اپریل، 2020

نمازِ وتر کے بعد نوافل پڑھنے کا حکم

*نمازِ وتر کے بعد نوافل پڑھنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا نماز وتر کے بعد کوئی بھی نفل نماز نہیں ہے؟ کیا ایسی کوئی حدیث ہے؟ براہ کرم اس سلسلے میں مکمل مفصل مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : زبیر احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی درج ذیل روایت کی بنیاد پر بعض حضرات وتر کے بعد نفل پڑھنے کو منع کرتے ہیں۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اجْعَلُوا آخِرَ  صَلَاتِکُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا۔
ترجمہ : عبداللہ بن عمر نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ وتر کو رات کی آخری نماز بناؤ۔

جب کہ نمازِ وتر کے بعد دو رکعت نفل بیٹھ کر پڑھنا متعدد احادیث سے ثابت ہے۔

1) اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی) ابن ماجہ نے اس روایت میں خَفِیْفَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر مختصر پڑھا کرتے تھے۔

2) حضرت ثوبان ؓ راوی ہیں کہ سرکار کونین ﷺ نے فرمایا (تہجد کے لئے) رات کو بیدار ہونا مشکل اور گراں ہوتا ہے اس لئے جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کے آخری حصے میں جاگنے) کا یقین نہ رکھتا ہو اور سونے سے پہلے یعنی عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں پڑھ لے ، اگر وہ نماز تہجد کے لئے رات کو اٹھ گیا تو بہتر ہے اور اگر نہ اٹھ سکا تو پھر دو رکعتیں کافی ہوں گی (یعنی ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے کی وجہ سے اسے نماز تہجد کا ثواب مل جائے گا۔

3) حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور ان میں اذا زلزلت الارض اور قل یا ایھاالکافرون پڑھتے تھے۔

درج بالا احادیث سے صراحتاً اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا قولاً اور فعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ خَافَ اَنْ لاَّ ےَقُوْمَ مِنْ اٰخِرِ اللَّےْلِ فَلْےُوْتِرْ اَوَّلَہُ وَمَنْ طَمَعَ اَنْ ےَّقُوْمَ اٰخِرَہُ فَلْےُوْتِرْ اٰخِرَ اللَّيل فَاِنَّ صَلٰوۃَ اٰخِرِ اللَّےْلِ مَشْھُوْدَۃٌ وَذَالِکَ اَفْضَلُ۔(مسلم)
ترجمہ : حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا " جس آدمی کو اس بات کا خوف ہو کہ آخر رات کو وتر پڑھنے کے لئے نہ اٹھ سکوں گا تو اسے چاہیے کہ وہ شروع رات ہی میں (یعنی عشاء کے فورا بعد ) وتر پڑھ لے اور جس آدمی کو آخر رات میں اٹھنے کی امید ہو تو وہ آخر رات ہی میں وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز مشہودہ ہے (یعنی) اس وقت رحمت کے فرشتوں اور انوارو برکات کا نزول ہوتا ہے اور یہ (یعنی آخررات میں و تر پڑھنا ) افضل ہے۔(صحیح مسلم)

مسلم شریف کی اس روایت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس شخص کو اخیر رات میں نیند سے بیدار ہونے پر یقین واعتماد ہو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ تہجد سے فارغ ہوکر اخیر میں وتر ادا کرے۔ اس کے بعد نوافل نہ پڑھے، اور اگر پڑھ لے تو مباح ہے، اس لئے کہ حدیث اجعلوا آخر صلاتکم وترًا میں امر مستحب پر محمول ہے نہ کہ وجوب پر، جیسا کہ صاحب مرقاۃ نے ذکر کیا ہے : اجعلوا أي أمر مندوب (مرقاة:۳/۱۶۴)

مسلم شریف کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جس شخص کو اخیر رات میں بیدار ہونے کا یقین نہ ہو تو وہ عشاء کے فوراً بعد وتر پڑھ لے۔ اب اگر ایسا شخص اخیر شب میں بیدار ہوجائے تو وہ کیا کرے؟ بخاری شریف کی روایت "وتر کو رات کی آخری نماز بناؤ " پر عمل کیا جائے تو ایسا شخص پھر تہجد (جو کہ نفل ہے) نہیں پڑھے گا کیونکہ اس نے تو وتر ادا کرلی ہے۔

نیز شعب الایمان کی ایک روایت میں ہے حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : جب شب قدر آتی ہے تو اس رات میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے جلو میں اترے ہیں اور ہر اس بندے کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا ہوا اللہ تعالٰی کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے۔

اس روایت کی بنیاد پر مانعین سے ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب رمضان المبارک میں وتر باجماعت ادا کرنے کے بعد کوئی نفل نہیں پڑھی جا سکتی تو پھر یہاں حدیث شریف میں قائم سے مراد کیا لیا جائے گا؟ فرشتوں کی جماعت کس کے لیے بخشش کی دعا کرے گی؟ بلاشبہ یہاں قائم سے مراد نماز پڑھنے والے ہی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وتر کے بعد رات بھر نفل نمازیں پڑھی جا سکتی ہے۔

مندرجہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوگیا کہ وتر کے بعد نفل پڑھنا جائز و مباح ہے، ضروری نہیں۔ جس کا جی چاہے پڑھے اجر وثواب کا مستحق ہوگا۔ جس کا جی  نہ چاہے نہ پڑھے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ لیکن سرے سے ان نفلوں کا انکار و منع کرنا غیر مناسب اور باعث تعجب ہے۔ البتہ غیر رمضان میں ان لوگوں کے لیے جنہیں اخیر شب میں اٹھنے کا یقین ہو اولیٰ اور افضل یہ ہے کہ وہ وتر کو اپنی آخری نماز بنائیں۔

1) عن أم سلمة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الوتر رکعتین رواہ الترمذي وزاد ابن ماجة خفیفتین وہو جالسٌ۔ (مشکاة ۱۱۳)

2) عن ثوبان عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن ہذا السہر جَہْدٌ وثِقْلٌ فإذا أوتر أحدکم فلیرکع رکعتین فإن قام من اللیل وإلا کانتا لہ۔ رواہ الدرامي (مشکاة: ۱۱۳)

3) عن أبي أمامة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلیہما بعد الوتر وہو جالس، یقرأ فیہما إذا زُلزلت، وقل یا أیہا الکافرون۔ (رواہ احمد بحوالہ مشکاة ص۱۱۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 رمضان المبارک 1440

3 تبصرے:

  1. مفتی زرولی خان رح بہت سختی سے منع کرتے تھے فرماتے ہیکہ امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک میں وتر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. تراویح میں قرآن مجید پڑھنے والے امام صاحب کو پیسے دینا کیسا ہے

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم