جمعرات، 30 اپریل، 2020

عید کے دن نئے کپڑے پہننے کا مسئلہ

*عید کے دن نئے کپڑے پہننے کا مسئلہ*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
  (امام وخطيب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! سوشل میڈیا کی سب سے بڑی بُرائی جس کی طرف بندے نے کئی مرتبہ نشاندہی کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایرا غیرا بیٹھے بیٹھے کچھ بھی لکھ دیتا ہے اور عوام کا ایک بڑا طبقہ بغیر سوچے سمجھے، اس کی شرعی حیثیت جانے بغیر اندھا دھند اسے شیئر کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ان نام نہاد مفکرین سے درخواست ہے کہ کچھ لکھنے سے پہلے بہت کچھ غور کرلیا کریں، آپ جو لکھ رہے ہیں اس کا دنیاوی کتنا فائدہ ہوگا؟ شریعت اس کی گنجائش ہوگی یا نہیں؟ ورنہ بروز حشر آپ کے لکھے ہوئے ہر ہر لفظ کی پوچھ ہوگی۔ اسی طرح ایسی پوسٹ بغیر سوچے سمجھے اور علماء کرام کی رہنمائی لیے بغیر دھڑا دھڑ شیئر کرنے والے بھی اپنی خیر منائیں کہ آپ کی ہر شیئر کی ہوئی پوسٹ کے بارے میں آپ کو اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ امت کے یہ خیرخواہ اپنے مضمون میں اپنا نام تک لکھنا گوارا نہیں کرتے۔ نام کیوں نہیں لکھتے؟ جب یہ اپنے آپ کو امت کا خیرخواہ سمجھتے ہیں تو اپنا نام لکھنے میں ان کو کیا پریشانی ہے؟ اگر یہ حضرات اپنا نام لکھ دیا کریں تو براہ راست ان سے رابطہ کرکے ان سے مزید استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

محترم قارئین ! فی الحال سوشل میڈیا پر انہیں پردہ نشین مفکرین کی طرف سے یہ بات بہت زور وشور سے چلائی جارہی ہے کہ ہمیں عید پر نئے کپڑے نہیں پہننا ہے، کیونکہ جب حرمین شریفین اور مساجد بند ہیں تو ہم نیا کپڑا پہن کر کیا کریں گے؟ اور کہیں یہ کہا جارہا ہے کہ نیا کپڑا پہننے سے ان لوگوں کی دل آزاری ہوگی جو نیا کپڑا نہیں پہن سکیں گے۔

ایسے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ شریعت کاملہ کا واضح حکم یہ ہے کہ استطاعت ہوتو عید کے دن نیا کپڑا پہننا مستحب ہے۔ اگر نیا کپڑا بنانے کی استطاعت نہ ہوتو جو سب سے اچھا کپڑا ہو وہ پہن لینا چاہیے۔ اب جن لوگوں کی استطاعت ہے وہ تو نیا کپڑا پہنیں گے اور جو استطاعت نہیں رکھتے وہ اپنے پاس موجود سب سے اچھا کپڑا پہنیں گے تو اب اس میں دل آزاری والی بات کہاں سے آگئی؟ کیا ایسے علاقے جہاں کچھ لوگ عید پر نئے کپڑے بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہاں استطاعت رکھنے والوں پر نئے کپڑے پہننا ناجائز ہوجائے گا؟ بالکل نہیں۔ بلکہ ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق شریعت پر عمل کرے گا۔

اسی طرح حرمین شریفین اور مساجد کے بند ہونے پر بطور سوگ عید کے دن نئے کپڑے نہ پہننا بھی درست نہیں ہے۔ بلاشبہ حرمین اور مساجد میں عام نمازیوں کی پابندی ہم سب کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ لیکن اس کے سوگ اور غم میں عید کے دن نئے کپڑے نہ پہننے کی بات شریعت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ ایسے حالات میں رجوع الی اللہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ناکہ اپنے طور سے کوئی بھی پابندی لگادینے کی، جو مزاجِ شریعت کے خلاف ہو۔

پھر یہ بالکل الگ موضوع ہے کہ آپ عید کی تیاریوں میں فضول خرچی سے پرہیز کریں۔ اور موجودہ حالات میں تو اس کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم احتیاط سے خرچ کریں، اور حتی الامکان غریبوں کی مدد کو اپنے لیے ضروری سمجھیں۔ نیز احتیاطی تدابیر کا تقاضا ہے کہ ہم بازار کی بھیڑ کا حصہ بالکل نہ بنیں۔ کم سے کم خریدی پر اکتفا کریں۔ بالخصوص خواتین غیر ضروری چیزوں کے خریدنے سے بالکل اجتناب کریں۔

نوٹ : غیرمسلموں کی دوکانوں سے خریدی سے متعلق بھی بہت سی باتیں گردش کررہی ہیں، جس پر چند دنوں پہلے ایک مفصل اور مدلل جواب بعنوان "شہریت ترمیمی قانون حامیوں کا بائیکاٹ کرنا" لکھا گیا ہے، لہٰذا اس موضوع پر اس جواب کا مطالعہ مفید ہوگا۔

اللہ تعالٰی ہم سب شرعی احکامات کی باریکیوں کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، من مانی کرنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

5 تبصرے:

  1. الحمد للہ
    رہبری کرنے کے لۓ اللہ آپ کو جزاۓ خیر عطا فرماۓ.
    آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. واجب التکریم لائق صدہا صد احترام حضرت مفتی صاحب
    السلام علیکم
    آپ کی بات سر آنکھوں پر لیکن حالات کی بناء پر یہ بات چلائ گئی ہے ممبئ کے کچھ علماء نے اپنے نام کے ساتھ اس کو وائرل کیا ہے اگر میرے پاس آپ کا وہاٹس اپ نمبر ہوتا تو میں آپ کو ضرور وہ سینڈ کرتا آپ حالات حاضرہ سے بخوبی واقف ہونگے کہ مسلمانوں کو راندہ درگاہ کیا جارہا ہے اور بدنام کیا جا رہا ہے اسی وجہ سے یہ پپوسٹ چلائ گئی اور آپ اس وبائ بیماریوں میں احکام احادیث دیکھ کر فتویٰ رقم کریں
    والسلام مع الانام
    خاکپاۓ اولیاء چشت و اکابرین دارالعلوم دیوبند

    جواب دیںحذف کریں
  3. نئے کپڑے پہننے سے منع نہ کیا جائے ۔ بس سماجی فاصلہ بنائے رکھنے، احتیاط سے خرچ کرنے، نیز غریبوں کی حتی الامکان مدد کرنے کی ترغیب دی جائے کہ یہی اصولی بات ہے۔ جس میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔

    واللہ تعالٰی اعلم
    محمد عامر عثمانی ملی

    جواب دیںحذف کریں
  4. آپ شریعت کی باریکیوں سے تو واقف ہیں شاید لیکن حالاتِ حاضرہ سے یقیناً نا واقف ہیں آپ نے مسئلہ بیان کیا صرف عید کے دن نئے کپڑے پہننے کے بارے میں لیکن آپ نے اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ عید کے دن مسلمان صرف نئے کپڑے پہننے پر خرچ نہیں کرتا عید کی خریداری کے نام پر خرچ کئے جانے والے پیسے کا معمولی سا حصہ کپڑوں پر خرچ ہوتا ہے اور ایک بڑی رقم ان فضولیات میں استعمال ہوتی ہے جن کو آپ نے محض چند لفظوں میں سرسری سا بیان کیا ہے حالانکہ اصل میں آپ کو ان فضول خرچیوں کے بارے میں شدت سے کہنا چاہئے تھا سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ہر تحریر پر تنقید کی بلکہ تنقیص کی تلوار چلانا ضروری نہیں ہوتا علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا ایک شعر آپ کی نذر کرتا ہوں
    میں جانتا ہوں انجام اُس کا
    جس معرکے میں مُلّا ہوں غازی

    جواب دیںحذف کریں
  5. سال میں دو ہی تہوار ہے اور ہم کو خوشی خوشی وہ تہوار بنانے کا حق ہے لیکن نیا کپڑا نہ پہننے میں کوئی گناہ نہیں اور ویسے بھی نیا کپڑا پہننا اصل خوشی نہیں وہ تو بس خوشی کی ایک علامت ہے فی الحال ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سب سے سچی اور بڑی خوشی کی بات یہ ہوگی کہ جن حالات سے وہ گزر رہے ہیں اور جی ظالموں کو فل وقت سامنا ہے ان کو اس سے نجات مل جائے اور یہ بائیکاٹ اور سادگی سے عید منانے کا فارمولا اسی کی ایک کڑی ہے تاکہ ہمارے ہیں پیسوں سے وہ اپنی تلافی کر کے ہم کو ہی نقصان نہ پہنچا سکے
    واللہ اعلم بالصواب
    مزید استفادے کی کوئی ضرورت نہیں اگر موقع رہا تو آئندہ پھر ملاقات ہوگی

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم