پیر، 20 اپریل، 2020

لاک ڈاؤن میں تراویح کیسے پڑھیں؟

*لاک ڈاؤن میں تراویح کیسے پڑھیں؟*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
   (امام وخطيب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ہندوستان سمیت پوری دنیا کے اکثر ممالک میں کرونا وائرس کو لے کر احتیاطی تدابیر کے تحت لاک ڈاؤن کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مساجد میں نماز پڑھنے کے لیے پانچ افراد کی اجازت دی گئی ہے اور بقیہ افراد کے لیے گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ الحمدللہ اس پر عمل بھی ہورہا ہے اور پنج وقتہ نمازوں اور نماز جمعہ کا گھروں میں اہتمام کیا جارہا ہے۔ اب چونکہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، لہٰذا ہمارے سامنے ایک اہم مسئلہ تراویح کا ہے جس پر مختلف سوالات آرہے ہیں، دارالعلوم دیوبند کی طرف سے بھی اس سلسلے میں مفصل رہنمائی کردی گئی ہے، تاہم کچھ مسائل اب بھی باقی رہ جاتے ہیں جن کا اس مضمون میں احاطہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

*تراویح میں مکمل قرآن مجید پڑھنا*
مساجد اور گھروں میں حفاظ کا نظم ہوتو وہاں مکمل قرآن مجید تراویح میں پڑھا جائے، بالخصوص مساجد میں حفاظ کے ہوتے ہوئے صرف نمازیوں کی تعداد کم ہونے یا سُستی کی وجہ سے ختم قرآن کی ایک اہم سنت ترک کردینا قطعاً درست نہ ہوگا۔ لہٰذا اس کا خوب خیال رکھا جائے۔

مساجد اور گھروں میں حفاظ کا نظم نہ ہوسکے تو الم تر کیف سے یا جتنا قرآن یاد ہوتو اتنا پڑھ لیا جائے، خواہ قرآن کم یاد ہونے کی وجہ سے سورتوں کے کئی مرتبہ دوہرانے کی نوبت آئے تب بھی کوئی حرج نہیں۔

جو حضرات باوجود خواہش اور کوشش کے تراویح میں مکمل قرآن نہ سُن سکیں وہ مایوس نہ ہوں، ان شاء اللہ یہ حضرات اپنی نیت کے مطابق مکمل قرآن سُننے کا ثواب پائیں گے۔

ایک ترتیب یہ بھی ہے کہ گھروں میں تراویح پڑھانے والے حفاظ قریب کی مسجد کے امامِ تراویح کی ترتیب کے مطابق پڑھائیں اور درمیانِ رمضان جب حالات سازگار ہوجائیں (اللہ کی ذات سے بعید نہیں ہے) اور مسجد میں عمومی جماعت کی اجازت مل جائے تو پھر بقیہ تراویح مسجد میں ادا کرلی جائے۔ ورنہ اپنی جگہ پر قرآن مکمل کیا جائے۔ ملحوظ رہے کہ ایسا کرنا صرف جائز ہے، فرض یا واجب نہیں۔ لہٰذا پابندی ختم ہونے کے باوجود گھروں پر قرآن مکمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ جہاں تراویح میں مکمل قرآن نہیں پڑھا جارہا ہو ایسے افراد کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پابندی ختم ہونے کے بعد مسجد میں بقیہ تراويح ادا کریں۔

جن مساجد میں پانچ افراد کے نماز پڑھنے کا ضابطہ بنا ہوا ہو اس پر مصلیان عمل کریں، مسجد میں نماز پڑھنے کے جذبہ کی وجہ سے امام، مؤذن و ذمہ داران سے تکرار نہ کریں، اچھی طرح سمجھ لیں کہ آپ کی بے احتیاطی کی وجہ سے خدانخواستہ مسجد پر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اس کا وبال اور گناہ آپ پر ہوگا۔ لہٰذا حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ ذمہ دارانِ مسجد کے ساتھ تعاون کریں۔ نیز ایسے حالات میں گھر پر نماز پڑھنے کی صورت میں بھی آپ مسجد میں نماز پڑھنے کے ثواب کے حقدار ہوں گے۔

*گھروں میں کیسے تراویح پڑھی جائے؟*
گھر میں اگر ایک سے زائد افراد ہوں تو انہیں باجماعت تراويح ادا کرنا چاہیے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ باجماعت نماز اکیلے نماز کے مقابلہ میں ۲۷؍ درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (بخاری : ۱؍۸۹)

خواہ مرد کے ساتھ ایک عورت یا نابالغ سمجھدار بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس صورت میں بھی باجماعت نماز کا ثواب مل جائے گا، لیکن یہ عورت مرد کے لیے محرم ہو، یعنی بیوی، ماں، بہن، دادی وغیرہ ۔ مرد کا صرف غیرمحرم عورت (خواہ ایک ہو یا ایک سے زائد) کی امامت کرنا سخت مکروہ ہے۔

اگر جماعت میں غیرمحرم مرد بھی ہوں تو خواتین پردے کی آڑ میں نماز پڑھیں۔

اگر جماعت میں عورت بھی ہوتو امام کے لیے عورت کی امامت کی نیت بھی کرنا ہے، اور اس کے لیے باقاعدہ الفاظ ادا کرنے کی ضرورت نہیں، دل میں ارادہ ہونا کافی ہے۔

مرد وعورت مقتدیوں کے لیے ضروی ہے کہ وہ امام کی اقتداء کی نیت کرلیں، اس کے لیے بھی الفاظ کا ادا کرنا ضروری نہیں، دل میں ارادہ کرلینا کافی ہے۔

جس طرح مرد امام کی اقتداء میں قرأت کی جگہ خاموش رہتے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے، اور جہاں مردوں کے لئے دعا اور تسبیحات پڑھنے کا حکم ہے وہی حکم عورتوں کے لیے بھی ہے۔

*نابالغ کی امامت*
احناف کے نزدیک بالغ حضرات کی امامت کے لئے امام کا بالغ ہونا شرط ہے، نابالغ کی امامت بالغ مرد و عورت کے حق میں درست نہیں ہے، خواہ فرض نماز ہو یا نفل۔ البتہ نابالغ بچوں کے حق میں نابالغ کی امامت درست ہے۔ لڑکا بارہ سال میں بالغ ہوسکتا ہے، بشرطیکہ بلوغت کی علامتوں میں سے کوئی علامت ظاہر ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ لڑکے کو احتلام ہوجائے یا اس کی  وطی سے بیوی حاملہ ہوجائے، یا اس سے منی کا خروج ہوجائے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی علامت نہ پائی جائے تو لڑکے کی عمر پندرہ سال مکمل ہونے پر بلوغت کا حکم لگ جائے گا اور وہ بالغ حضرات کی امامت کرسکے گا۔

*مسجد کے مائک کی آواز پر گھروں میں نماز پڑھنا*
مسجد کے مائک کی آواز سے گھروں میں نماز پڑھنا یا آن لائن تراویح میں امام کی اقتدا کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں اِتّصالِ صفوف نہیں پایا جاتا۔ اِتّصالِ صفوف یہ ہے کہ مسجد اور اس کے باہر لگائی گئی صفوں کے درمیان راستہ اتنا تنگ ہو کہ بیل گاڑی نہ گذر سکے تب باہر والوں کی اقتداء درست ہوگی۔ اور اگر راستہ اتنا کشادہ ہوکہ اس راستہ سے بیل گاڑی گذر سکتی ہو تو پھر باہر صف لگاکر پڑھنے والوں کی اقتداء درست نہیں۔ لہٰذا آن لائن تراویح میں امام کی اقتداء کرنے یا مسجد کے مائک کی آواز پر گھروں میں نماز پڑھنے والوں کی نماز نہیں ہوگی۔

*عورتوں کے حق میں عورتوں کی امامت*
خواتین کی امامت خواتین کے حق میں بھی اگرچہ بعض فقہاء کے نزدیک مکروہ ہے، لیکن تراویح کے باب میں بعض علماء نے گنجائش لکھی ہے، چنانچہ صاحب کتاب النوازل حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں :
اگر کوئی حافظہ عورت اپنا قرآن یاد کرنے کی غرض سے تراویح میں قرآنِ کریم سنائے تو اس کی گنجائش ہے، اس لئے کہ ام المؤمنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس صورت میں امامت کرنے والی خاتون صف کے بیچ میں کھڑی ہوگی مردوں کی طرح صف سے آگے نہیں بڑھے گی۔ (کتاب الآثار للامام محمدؒ ۱؍۲۰۳-۲۰۶، مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۴۰۳/بحوالہ کتاب المسائل)

*نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا*
نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا احناف کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ عملِ کثیر ہے۔ عملِ کثیر نمازی کے اس عمل کو کہا جاتا ہے جو اصلاحِ صلوۃ کے لیے نہ ہو، اور نہ ہی نماز کے اعمال میں سے ہو، اور اس کو اس انداز سے کیا جائے کہ اچانک دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے۔ مثلاً ٹوپی اتارکر دونوں ہاتھوں سے سر کھجانے لگنا یا اچھل کود کرنا، اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لہٰذا نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی وجہ سے امام و مقتدی کسی کی بھی نماز نہیں ہوگی۔

*مشہور تسبیح تراویح کا حکم*
تراویح کی بیس رکعات دس سلاموں سے پڑھی جائیں گی اور ان میں ہر ترویحہ یعنی چار رکعت اور وتر کے درمیان کچھ دیر ٹھہرنا مستحب ہے۔

ترویحہ کے لئے کوئی خاص عبادت متعین نہیں ہے، بلکہ اس بات کا اختیار ہے خواہ ذکر اذکار کیا جائے، یا تلاوت کی جائے یا پھر انفرادی طور پر نفل بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ بعض فقہاء سے یہ تسبیح سبحان ذی الملک والملکوت ۔۔۔ الخ  کا پڑھنا منقول ہے، اس لیے یہ تسبیح بھی پڑھی جاسکتی ہے، لیکن خیال رہے اس کا پڑھنا صرف جائز ہے، فرض واجب یا سنت نہیں ہے، پس اسے فرض، واجب یا سنت سمجھتے ہوئے عمل کرنا نیز جہراً پڑھنا جائز نہیں ہے۔ فی زمانہ اس تسبیح کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جنہیں یاد نہ ہو وہ دیگر آسان اذکار کے بجائے یہی تسبیح دیکھ کر پڑھتا ہے، مساجد میں اس تسبیح کے پمفلٹ چسپاں کیے جاتے ہیں، جس سے گمان یہی ہوتا ہے کہ اسے ضروری سمجھ لیا گیا ہے، لہٰذا اس کی اصلاح ضروری ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ اس تسبیح کا پڑھنا سنت نہیں ہے، اس لئے کہ کسی حدیث شریف میں اس کا حکم یا ترغیب یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا اس پر عمل مذکور نہیں ہے، بلکہ فقہ حنفی کی کتابوں میں سب سے پہلے یہ دعا قہستانی کی شرح وقایہ میں ملتی ہے، اور قہستانی نے اس کا حوالہ "منہج العباد" نامی کتاب کا دیا ہے، پھر قہستانی کی کتاب سے علامہ شامی نے "رد المحتار" میں نقل کیا ہے، پھر ردالمحتار سے یہ دعا کتب فقہ وفتاوی میں رائج ہوگئی۔

مذکورہ تسبیح کے علاوہ وہ اذکارِ مسنونہ جن کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہیں مثلاً سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ وغیرہ بھی پڑھ سکتے ہیں، بلکہ ان کا پڑھنا زیادہ بہتر ہے، اسی پر سلف صالحین اور اکابر علماء دیوبند رحمھم اللہ  کا عمل رہا ہے۔ ذیل میں ہم چند اکابر علماء دیوبند کا معمول ذکر کرتے ہیں۔

حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ کا معمول اس کے بجائے (سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلِه وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللہُ أَکْبَرُ) پڑھنے کا تھا۔

حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : احقر کہتا ہے کہ کلمہ(سبحان اللہ) الخ کی بہت فضیلت احادیثِ صحیحہ میں وارد ہے، اس لئے تکرار اس کا افضل ہے، اور یہی معمول ومختار تھا حضرت محدث وفقیہ گنگوہی ؒ کا۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند، 246/4،سوال نمبر1761)

حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ : آپ ترویحہ میں کیا پڑھتے ہیں؟ فرمایا : شرعاً کوئی ذکر متعین تو ہےنہیں، باقی میں پچیس مرتبہ درود شریف پڑھ لیتاہوں۔(تحفۂ رمضان، صفحہ نمبر۱۱۱)

لہٰذا گھروں میں تراویح پڑھنے والے احباب تسبیح تراویح کے سلسلے میں تشویش میں مبتلا نہ ہو، اور پمفلٹ کے چکر میں نہ پڑیں یہ تسبیح یاد ہوتو اسے پڑھ لیں ورنہ اوپر کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جو آسان تسبیح لگے وہ پڑھ لی جائے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو رمضان المبارک کی تمام تر عبادتوں کو خشوع وخضوع سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم