*لاک ڈاؤن کی وجہ سے معلمین کی تنخواہ کم کرنا*
سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ مدارس و مکاتب کی تعطیلات قبل از وقت ہو جانے اور لاک ڈاؤن میں کاروبار بند ہوجانے کی وجہ سے فیس اور عطیات کی وصولی نہ ہونے سے انتظامیہ کو اساتذہ کرام کی تنخواہ مکمل دی جانی چاہیے یا اس میں کچھ تخفیف کرنا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرماکر عندﷲ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبدالعلیم اشاعتی، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مدارس و مکاتب کے معلمین کا معاملہ بھی ائمہ ومؤذنین کی طرح ہے، ان کے بارے میں بھی ہمارے یہاں عُرف یہی ہے کہ ان کی تنخواہ چھٹیوں میں بھی پوری ادا کی جاتی ہے۔
مفتی شبیر صاحب قاسمی لکھتے ہیں :
یہاں کا عرف بھی ہے کہ اگر کسی وجہ سے مدرسہ کچھ عرصہ تک بند ہوجائے اور مدرسین وملازمین استعفیٰ نہ دیں یا ان کو معزول نہ کیا جائے، بلکہ اپنے آپ کو مدرسہ کی خدمت کے لئے سپرد کئے رکھیں تو وہ لوگ تنخواہ کے حق دار ہیں، جیسا کہ ۱۹۸۰ء کے فساد کے موقع پر دو تین ماہ تک مرادآباد کے بڑے بڑے مدرسہ بند رہے، مدرسہ جامعہ قاسمیہ شاہی، مدرسہ امدادیہ، جامع الہدیٰ وغیرہ بند رہے، لیکن مدرسین وملازمین کو تنخواہ بھی ملتی رہی، اسی طرح اگر سوال نامہ میں درج شدہ زید کی طرف سے کوئی تعدی نہیں ہوئی اور اس نے مسلسل مدرسہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کر رکھا ہے، نہ اس نے استعفیٰ دیا اور نہ اس کو معزول کیا گیا ہے، تو وہ روکی گئی تنخواہوں کا حق دار ہے۔ (مستفاد : امداد الفتاوی : ۳/ ۳۴۹ /بحوالہ فتاوی قاسمیہ)
لہٰذا موجودہ لاک ڈاؤن کے حالات میں معلمین کی تنخواہ میں کمی کرنا درست نہیں ہے۔ ابھی مکمل تنخواہ کا انتظام نہ ہوتو قرض لیا جائے یا پھر بعد میں جب بھی حالات سازگار ہوں ان کی تنخواہ ادا کی جائے گی۔
الثابت بالعرف کالثابت بالنص۔ (عقود رسم المفتي قدیم/ ۳۸، قواعد الفقہ أشرفي دیوبند /۷۴، رسائل ابن عابدین، ثاقب بک ڈپو دیوبند /۴۴)
وقول الفقہاء : المعروف کالمشروط۔ (عقود رسم المفتي/ ۹۴)
المعروف بالعرف کالمشروط شرطا الخ۔ (قواعد الفقہ، اشرفی دیوبند/ ۱۲۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 شعبان المعظم 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں