*مستحق زکوٰۃ کون؟ مزدوروں کو کھوٹی اور حق رضا میں زکوٰۃ اور سودی رقم دینا*
سوال :
مفتی صاحب ! پاور لوم صنعت پر مندی کی وجہ سے کاروبار بند ہوتو سیٹھ حضرات پاور لوم مزدوروں کو کھوٹی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مزدوروں کو کھوٹی زکوٰۃ یا سود کے پیسے میں سے دی جا سکتی ہے؟ اسی طرح عید کے موقع پر حق رضا میں زکوٰۃ اور سودی رقم دی جاسکتی ہے؟ یا سیٹھ کو اپنے ذاتی پیسے میں سے دینا چاہیے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ مستحق زکوٰۃ کون ہے؟
(المستفتی : مقیت الرحمن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زکوٰۃ مستحق مسلمان کو دینا ضروری ہے، جس کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ زکوٰۃ کسی عوض کے بغیر دی جائے۔ یعنی مستحق زکوٰۃ شخص کو اگر زکوٰۃ اس کی مزدوری اور اجرت کے طور پر دی جائے تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
پاور لوم صنعت پر کساد بازاری اور مندی کی وجہ سے پاور لوم بند ہوتو ایسے حالات میں سیٹھ حضرات اب مزدوروں کو جو کچھ بھی کھوٹی یا عید کے موقع پر حق رضا کے نام پر جو رقم دیں گے تو وہ عوض اور بدل نہیں ہوگا بلکہ یہ سیٹھ حضرات کی طرف سے تعاون اور امداد ہے۔ لہٰذا اگر مزدور مستحق زکوٰۃ ہے تو اسے کھوٹی اور حق رضا میں زکوٰۃ اور سودی رقم بھی دی جاسکتی ہے۔ نیز اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ مزدور کو یہ بتاکر دیا جائے کہ یہ زکوٰۃ کی یا سود کی رقم ہے۔ اسی طرح مزدور اگر مستحق زکوٰۃ ہوتو وہ خود بھی سیٹھ سے کہہ کر زکوٰۃ یا سودی رقم طلب کرسکتا ہے۔ کیونکہ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سیٹھ کسی کے بارے میں یہ گمان کرتا ہے کہ فلاں مزدور مستحق زکوٰۃ نہیں ہے، لہٰذا وہ اسے زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اور سیٹھ کے پاس صدقہ نافلہ کی رقم بھی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مستحق افراد محروم رہ جاتے ہیں، اور سخت تنگی میں گذارا کرتے رہتے ہیں، لہٰذا وہ خود بھی اپنی حیثیت بتاکر زکوٰۃ وصول کرسکتے ہیں، اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔
البتہ اگر مزدور صاحبِ نصاب ہو یعنی اس کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، کھانے پینے کے سامان، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ سونا، چاندی، نقد رقم یا مال تجارت اتنی مقدار میں ہو کہ ان کی مالیت موجودہ تولہ کے اعتبار سے باسٹھ تولہ چاندی کی مقدار کو پہنچ جائے، (جس کی قیمت فی الحال اپریل 2024 میں ہمارے شہر مالیگاؤں کے اعتبار سے کم و بیش 50000 پچاس ہزار بنتی ہے) اور اس پر سال گذر گیا ہو۔ اتنی ملکیت رکھنے والا شخص صاحبِ نصاب اور شرعاً مالدار کہلاتا ہے۔ لہٰذا ان کا زکوٰۃ لینا اور علم ہونے کے باوجود انہیں زکوٰۃ دینا اصلاً درست نہیں ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس بقدر نصاب مال ہوتا ہے، مثلاً کچھ چاندی، سونا اور نقد رقم ملاکر ان کے پاس 50000 کی مالیت ہوتی ہے، لیکن ان کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ یا آمدنی کا ذریعہ تو ہوتا ہے لیکن اہل وعیال کی کثرت یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے ان کی آمدنی سے ان کے اخراجات پورے نہیں ہوپاتے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو بھی زکوٰۃ اور سودی رقم دی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی مذکورہ اعتبار سے صاحب نصاب ہو اور اس کی آمدنی سے اس کے اخراجات بھی پورے ہوجاتے ہوں تو اس کا زکوٰۃ یا سودی رقم لینا اور اسے زکوٰۃ یا سودی دینا جائز نہیں۔
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ بیوی کے زیورات کی وجہ سے شوہر کو بھی صاحبِ نصاب سمجھ لیا جاتا ہے، لہٰذا دونوں میں سے کوئی ایک ان چیزوں کا مالک بن جائے اور جو مالک نہ ہو وہ صاحب نصاب نہیں رہے گا۔ لہٰذا سخت تنگی کے حالات میں جبکہ آمدنی کے ذرائع بھی بند ہوں تو ایسا شخص زکوٰۃ اور سودی رقم لے سکتا ہے اور اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔
یہاں ایک مسئلہ یہ بھی جان لیں کہ اگر کسی نے اپنی زکوٰۃ کسی کو مستحقِ زکوٰۃ سمجھ کر دی بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص صاحب نصاب ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوگئی، دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔
منہا کون المال نصاباً…، ومنہا الملک التام ومنہا فراغ المال عن حاجتہ الأصلیۃ فلیس فی دور السکنی وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ…، ومنہا الفراغ عن الدین… ومنہا کون النصاب نامیاً۔ (شامی : ۳؍۱۷۴)
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)
دفع بتحر لمن یظنہ مصرفاً - إلی قولہٖ - وإن بان غناہ أو کونہ ذمیاً أو أنہ أبوہ أو ابنہ أو إمرأتہ أو ہاشمی لایعید۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۱۹۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 شعبان المعظم 1441
ماشاء اللہ۔۔کافی اہم معلومات ہے
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ، بہترین انداز میں رہنمائی فرمائی، جزاکم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںجذاک اللہ
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب ایک آدمی مالدار ہے اور صاحب نصاب ہے مگر اس پر اتنا قرضہ ہے کہ وہ پورا قرضہ چکائے گا تو صاحب نصاب باقی نہیں رہے گا تو وہ زکوٰۃ کیسے ادا کرے؟
جواب دیںحذف کریں