*سعودی حکومت کا ویزہ پر پابندی لگانا؟*
سوال :
کیا کسی آدمی کی بیماری کسی دوسرے آدمی کو لگ سکتی ہے؟ اسلامی احکامات اس بارے میں کیا ہے؟ جبکہ سعودی عرب والوں نے فی الحال بیماری کے ڈر سے ویزہ پر روک لگا رکھی ہے کیا انکا یہ عمل درست ہے؟ مکمل وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بیماریوں کا ایک دوسرے کو لگنا اس مسئلے کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے پہلے درج ذیل تین روایات ملاحظہ فرمالیں۔
1) سیدنا شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو ثقیف میں سے ایک کوڑھ زدہ آدمی آیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرے، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک جذام زدہ آدمی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا : تم اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ میں نے اس کی بیعت قبول کرلی ہے، وہ وہیں سے واپس چلا جائے۔ (گویا آپ نے اس کو سامنے نہیں بلایا تاکہ حاضرین مجلس کو کراہت محسوس نہ ہو)۔ (مسلم)
2) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالا کرو۔ (ابن ماجہ)
3) سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے۔ (مسند احمد)
ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جذامی کی صحبت و ہم نشینی سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے، جبکہ وہ احادیث ان کے برعکس ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ (1) ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بالکل متضاد ہیں، اس تضاد کو دور کرنے کے لئے اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء کے متعدد اقوال منقول ہیں۔
حضرت شیخ ابن عسقلانی نے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جن احادیث میں عدویٰ یعنی چھوت کی نفی کی گئی ہے ان کا حکم اپنے عموم و اطلاق کے ساتھ قائم و باقی ہے اور ان لوگوں کی مخالطت و مجالست جو جذام جیسے امراض میں مبتلا ہوں ان کی بیماری لگنے کا سبب ہرگز نہیں ہوتا اور جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو جذامی سے اجتناب و پرہیز کو ظاہر کرتی ہیں تو ان کا مقصد محض اوہام و وساوس کا سدباب ہے کہ کوئی شخص شرک کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔
اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اختیار کی، یعنی ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا اور ان کے ساتھ ملنا جلنا جاری رکھا اور پھر اسی دوران اللہ کا یہ حکم ہوا کہ وہ شخص بھی جذام میں مبتلا ہوگیا تو بعیدنہیں کہ وہ اس وہم و اعتقاد میں مبتلا ہو جائے کہ میں اس جذامی کی مخالطت و مجالست ہی کی وجہ سے اس مرض میں گرفتار ہوا ہوں، لہٰذا آپ ﷺ نے لوگوں کو اس وہم و اعتقاد سے بچانے کے لئے جو کفر و شرک کی حد تک پہنچاتا ہے، جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو حکم سے مستثنیٰ رکھا کیونکہ آپ توکل واعتقاد علی اللہ کے اعلی مرتبہ پر فائز تھے اس کی بنا پر مذکورہ وہم وگمان میں آپ ﷺ کے مبتلا ہونے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ ایک دن آپ ﷺ ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لائے اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ (2)
حاصل یہ کہ جذامی سے اجتناب وپرہیز کرنے کا حکم اس شخص کے لئے ہے جو اپنے صدق و یقین کی طاقت نہ رکھے اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ کسی جذامی کی مخالطت ومجالست کے دوران خود اس مرض میں مبتلا ہو گیا تو اس وہم و اعتقاد کا شکار ہو کر شرک خفی کے گرداب میں پھنس جائے گا، اور جس شخص کا یقین و ایمان پختہ ہو اس شخص کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔
درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سعودی حکومت کا موجودہ حالات میں ویزہ پر پابندی لگانا شرعاً جائز اور درست ہے، کیونکہ یہ بیماری کے ڈر سے نہیں ہے بلکہ ایک اسلامی ملک سے حسن ظن رکھتے ہوئے یہی کہا جائے گا کہ یہ پابندی عقیدہ کی حفاظت کی وجہ سے ہے تاکہ عام مسلمان شرک خفی جیسے گناہ عظیم میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں۔
1) و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ۔ (مسلم)
2) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَی وَمُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ مَجْذُومٍ فَأَدْخَلَهَا مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ ثُمَّ قَالَ کُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَکُّلًا عَلَی اللَّهِ۔ (ابن ماجہ)
مستفاد : مشکوٰۃ المصابیح مترجم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 رجب المرجب 1441
ماشاء اللہ تبارک اللہ
جواب دیںحذف کریںفتویٰ نویسی میں آپ کی نظیر نہیں ملتی ۔💐
آنجناب کا حسن ظن ہے۔
جواب دیںحذف کریںListen...
جواب دیںحذف کریںThis might sound kind of weird, and maybe even a little "out there..."
BUT what if you could just click "PLAY" and LISTEN to a short, "musical tone"...
And suddenly attract MORE MONEY to your life???
And I'm talking about hundreds... even thousands of dollars!!!
Do you think it's too EASY??? Think something like this is not for real??
Well, I've got news for you..
Sometimes the largest blessings life has to offer are the EASIEST!!!
In fact, I will PROVE it to you by letting you listen to a real-life "magical abundance tone" I've produced...
And do it FREE (no strings attached).
You just push "PLAY" and you will start having more money come into your life... starting so fast, you will be surprised...
GO here NOW to enjoy the wonderful "Miracle Money-Magnet TONE" as my gift to you!!!