*بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا*
سوال :
آدھار کارڈ اور دوسری دستاویزات پر، شادی سے پہلے لڑکیوں کے نام کے ساتھ باپ کا نام جڑا ہوتا ہے۔ مگر نکاح کے بعد شوہر کا نام لگایا جاتا ہے۔ اس طرح شوہر کا نام جوڑنا اسلامی نقطہ نظر سے صحیح ہے یا نہیں ؟
(المستفتی : مومن احمد حذیفہ، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا میں اصولی بات سمجھ لی جائے کہ عورت کے نام ساتھ جب اس کے شوہر کا نام لگایا جاتا ہے تو یہ نسبت زوجیت کی ہوتی ہے، ولدیت کی نہیں کہ جسے شرعاً ناجائز سمجھا جائے۔ لہٰذا نکاح کے بعد آدھار کارڈ وغیرہ سرکاری دستاویزات میں بیوی کے ساتھ شوہر کا نام لگانے شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
اس مسئلے کو مزید وضاحت اور دلائل کے ساتھ جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کے درج ذیل فتوی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
عورت کے نام کے ساتھ والدکا نام لگے یا شوہر کا، عرف میں اس کا مقصد تعارف اور شناخت ہے، اور یہ شناخت ان دو طریقوں کے علاوہ بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن وحدیث میں بعض عورتوں کا تعارف اللہ نے ان کے شوہروں کی نسبت سے کرایا ہے۔
قرآن کریم میں ہے :
﴿ اِمْرَاَةَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَةَ لُوْطٍ ﴾(التحریم:10) ترجمہ : حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی۔
حدیث شریف میں ہے :
"جَاءَتْ زَینب امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تستاذن عَلیه، فَقیل: یا رَسُولَ الله، هذه زینَبُ، فَقَالَ: أَی الزیانِبِ؟ فَقِیلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنُوا لَها“۔ (بخاری و مسلم) حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زینب جو امراۃ ابنِ مسعود ہیں، یعنی حضرت ابن ِ مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور اجازت طلب کی، پوچھا گیا کون سی زینب؟ جواب دیا گیا کہ: امراۃ ابنِ مسعود۔ آپ نے فرمایا کہ: ہاں! اُسے آنے کی اجازت ہے۔
اسی طرح آدمی کی پہچان بعض مرتبہ وَلاء یعنی جس نے غلام کو آزاد کیا ہے، اس سے ہوتی ہے، جیسے : "عَکرَمَه مولی ابن عباس“، کبھی پیشہ کے بیان سے ہوتی ہے، جیسے: "قدوری" وغیرہ، کبھی لقب و کنیت سے ہوتی ہے، جیسے: "أبو محمّد أعمَش“، کبھی ماں سے ہوتی ہے حالانکہ باپ معروف ہوتا ہے جیسے ’’إسماعیل ابن علیه“، وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس سے کوئی شرعی ضابطہ ٹوٹتا ہو، مقصد تعارف اور شناخت ہے، لہٰذا شادی کے بعد بیوی کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا جائز ہے۔
اگرکسی کو یہ شبہ ہوکہ بعض احادیث میں والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس بارے میں وعیدیں بھی آئی ہیں، تو خوب واضح ہونا چاہیے کہ ان احادیث کا مقصد یہ ہے کہ اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور شخص کی طرف اپنی نسبت اس طور پر کرنا کہ وہ دوسرا شخص والد سمجھا جائے یا اپنے والد کی نفی کرکے دوسرے کو والد کہنا ممنوع ہے۔ جہاں یہ شبہ نہ ہو تو کسی کی طرف اولاد والی نسبت کرنے کی بھی گنجائش ہوگی، مثلاً : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو پیارا بیٹا کہنا ثابت ہے۔
جب کہ بیوی کا نام شوہر کی طرف منسوب کرنے میں کسی طرح بھی ولادت کی نسبت نہیں سمجھی جاتی، لہٰذا یہ نسبت حدیث کی ممانعت میں داخل نہیں ہے۔ (رقم الفتوی :144106200131)
قَالَ اللہُ تعالٰی : ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۔(سورۃ الأحزاب، آیت :۵)
وروي عن النبي ﷺ أنہ قال : من ادّعی إلی غیر أبیہ وہو یعلم أنہ غیر أبیہ فالجنۃ علیہ حرام۔ (أحکام القرآن للجصاص : ۳/۴۶۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 رجب المرجب 1441
🌹🌹💐🌹🌹
جواب دیںحذف کریںاپ نے بھتر جواب دیا اللہ جزاے خیر سے نوازے اک اشکال یہ کہ اج کے موجودہ حالات میں ھمارے لیے جس میں آسانی ہو اور شرعا متعارض بھی نہ ھو یہ کہ ڈاکیومینٹ وغیرہ میں کیا نام ھونا چاھیے اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں
جواب دیںحذف کریںجہاں جیسی ضرورت ہو وہاں اس طرح استعمال کرسکتے ہیں۔
حذف کریںجذاک اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںبہت ہی واضح الفاظ میں تشریح فرمائی گئی جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدارین عبدالشکور پربھنی مہاراشٹر
جواب دیںحذف کریں