*ایک شخص کا متعدد مرتبہ فرض نماز پڑھانا*
سوال :
زید نے جو کہ حافظ ہے ایک ہی فرض نماز کی چار مرتبہ امامت کرائی الگ الگ لوگوں کی، جب اس سے کہا گیا تو بحث و تکرار کرنے لگا۔ کیا یہ درست ہے؟
مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص فرض نماز خواہ مقتدی بن کر ادا کرے یا انفرادی ادا کرے یا پھر امام بن کر ادا کرے اس کے بعد وہ دوسروں کو فرض نماز پڑھائے تو احناف کے نزدیک اس کی اقتداء کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی۔ کیونکہ امام نے اپنی فرض نماز ادا کرلی ہے اب یہ اس کی نفل نماز ہوگی۔ لہٰذا نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے والوں کی نماز درست نہ ہوگی۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ امام ضامن ہے۔ اس لئے ضامن کو مضبوط ہونا چاہئے اور اعلی درجہ کا ہونا چاہئے یا کم از کم برابر درجہ کا ہونا چاہئے۔ اور فرض پڑھنے والا اعلی اور مضبوط ہے جبکہ نفل پڑھنے والا ادنی اور کمزور ہے اس لئے فرض پڑھنے والے کے لیے نفل پڑھنے والے کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے۔
اسی طرح اس حدیث سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : امام صرف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے تم اس سے اختلاف نہ کرو۔ اور یہاں اعلی کا ادنی درجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے۔
لہٰذا مسئولہ صورت میں زید نے پہلی مرتبہ جو نماز لوگوں کو پڑھائی ہے اور اس سے پہلے خود اس نے یہ نماز ادا نہ کی ہوتو اس پہلی جماعت میں شریک ہونے والے مقتدی حضرات کی نماز درست ہوگئی۔ اس کے بعد بقیہ جماعتوں میں جتنے افراد نے زید کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے ان کی نماز نہیں ہوئی۔ لہٰذا وہ اپنی نماز دوہرا لیں۔
عن أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن۔ (سنن أبي داؤد رقم: ۵۱۷)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہما أنہ قال: إنما جعل الإمام إماماً لیؤتم بہ فلا تختلفوا علیہ۔ (صحیح البخاري، الأذان / باب فضل اللّٰہم ربنا لک الحمد رقم : ۷۹۶، صحیح مسلم، الصلاۃ / باب التسمیع والتحمید رقم : ۴۰۹)
ومن شروط الإمامۃ أن لا یکون الإمام أدنی حالا من الماموم فلا یصح اقتداء مفترض بمتنفل۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ : ۲۳۵)
ولا یصح إقتداء المفترض بالمتنفل۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۸۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں