اتوار، 9 فروری، 2020

غیرمسلم کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھانے اور اس کے یہاں حجامت بنانے کا حکم

*غیرمسلم کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھانے اور اس کے یہاں حجامت بنانے کا حکم*

سوال :

محترم مفتی صاحب! درج ذیل سوالات کافی عرصہ سے ذہن میں ہیں، اور احباب کے درمیان اس پر گفتگو ہوتے رہتی ہے، آپ سے استدعا ہے کہ ان پر مکمل رہنمائی فرمائیں اور اس قسم کے اور کوئی اشکال آپ کی نظر میں ہوں تو انہیں بھی امت کی اصلاح کے لئے ہم سب کو اپنے علم سے مستفیض فرمائیں۔

سوال نمبر 1 : ہمارے شہر میں عید گاہ گراؤنڈ پر بے شمار گاڑی والے ہیں جن میں تقریباً سبھی غیر مسلم ہیں، مسئلہ یہ ہے اور مشاہدے کی بات ہے کہ غیر مسلم دکاندار بغیر پانی لئے ایک کنارے جاکر کھڑے کھڑے پیشاب کرتے ہیں بغیر پانی لیے آ جاتے ہیں اور اسی ہاتھ سے پانی پوری، بھیل پوری، سینڈوچ اور جس کا جو دھندہ ہے شروع کر دیتے ہیں، جو ایک بار یہ حرکت دیکھ لیتا ہے دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کرتا۔
سوال یہ ہے کہ ایسے ہاتھوں سے بنی ہوئی کوئی بھی چیز جس میں ہمیں شک ہے کہ گندگی، پیشاب کے چھینٹے (ہاتھوں پر) لگے ہیں، تو ان کھانوں کو حرام کہا جائے یا مکروہ، اور ان کھانوں کا کھانا کیسا ہے؟
براہ کرم تفصیل سے جواب دے کر خاص طور پر امت کی ماں بہنوں، بیٹیوں کو بچائیں کیونکہ زیادہ تعداد انہی کی ہوتی ہے۔
سوال نمبر 2 : غیر مسلم حجام بھی اسی طرح کی حرکت میں ملوث نظر آتے ہیں بلکہ ایک اور اضافی بات یہ کہ بیت-الخلا صرف ایک لیٹر تک پانی کا ڈبہ لے کر جاتے ہیں اور اسی میں پاخانہ بھی صاف کرتے ہیں ہاتھ بھی دھو لیتے ہیں اور آکر داڑھی، کٹنگ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا ایسی جگہوں پر ہمیں داڑھی کٹنگ بنانی چاہیے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : غیرمسلم کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ اس کے ہاتھ سے بنے ہوئے کھانے پر ناجائز اور حرام کا حکم اس وقت ہوگا جب یقینی طور پر اس بات کا علم ہو کہ اس میں کوئی ناپاک اور حرام چیز کی ملاوٹ ہوئی ہے۔ سوال نامہ میں مذکور یہ بات کہ وہ طہارت کے بعد پانی نہیں لیتے اور اسی طرح وہ کھانے کی چیزیں بنانے لگتے ہیں جس کی وجہ سے اس میں نجاست کے ملنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ یہ صرف اندیشہ کی بات ہے، یقینی نہیں۔ جبکہ شریعت کا اصل حکم اندیشوں پر نہیں، بلکہ یقینی صورت میں ہوتا ہے، کیونکہ یہ اندیشہ صرف غیرمسلم کے یہاں نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے یہاں بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بعض جاہل مسلمان بھی پانی کے بغیر طہارت کرلیتے ہیں، پھر سوال نامہ میں مذکور کھانے کی چیزوں پر ہی کیوں؟ کھانے کی وہ چیزیں جو ڈبہ بند اور پلاسٹک میں پیک کمپنیوں سے آتی ہیں ان کو پیک کرنے والے بلاشبہ غیرمسلم بھی ہوں گے، اس پر کیا حکم لاگو ہوگا؟ کرانہ آئٹم کہیں نہ کہیں غیرمسلموں کے ہاتھوں میں ہوکر آتے ہیں اس پر بھی کوئی حکم لگایا جائے گا؟ ان چیزوں پر اگر شک شبہ کی بنیاد پر شرعاً حکم لاگو کیا جائے تو مسلمانوں کا جینا مشکل ہوجائے گا۔ لہٰذا جب تک یقینی علم نہ ہوجائے کہ پکانے والے غیرمسلم کے ہاتھوں میں نجاست لگی ہوئی تھی اور اس نے اسی طرح کھانے کے سامان میں ہاتھ ڈال کر پکایا ہے تب ہی اس کھانے کو ناجائز اور حرام کہا جائے گا۔ تاہم اگر کوئی احتیاط کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے، کرتا رہے، لیکن خود کسی کو بُرا بھلا نہ کہے۔

2) غیرمسلم کے یہاں حجامت کروانا جائز ہے، یہاں بھی معاملہ صرف شک شبہ کی بنیاد پر ہے، یقینی نہیں۔ اور ویسے بھی ظاہر ہے کوئی بھی نجاست ہاتھ میں لگاکر نہیں نکلے گا۔ لہٰذا اس پر بھی شرعاً کوئی حکم نہیں لاگو نہیں ہوگا۔البتہ کسی کو طبعی طور پر ایسے لوگوں سے کراہت ہوتی ہوتو وہ ان کے یہاں بال بنوانے سے خود تو احتراز کرے، لیکن دوسروں پر نکیر نہ کرے۔

نوٹ : غیرمسلم کی بہ نسبت مسلمان دوکاندار اور کاریگر سے معاملات کرنا بہرحال بہتر ہے کیونکہ اس میں مسلمان کی اعانت کا ثواب بھی ہے۔ لہٰذا اس کا خوب خیال رکھا جائے۔


ان ما ثبت بیقین لا یرتفع بالشک، وما ثبت بیقین لا یرتفع إلا بیقین۔ (۴۵/۲۷۹، یقین، الموسوعۃ الفقہیۃ)

الیقین لا یزول بالشک۔ (۱/۲۲۰، الاشباہ والنظائر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 جمادی الآخر 1441

3 تبصرے:

  1. عمدہ تشریح ۔جزاک اللہ خیرا کثیرہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت عمدہ تحریر ارسال فرمائی
    اللہ تعالیٰ آپکو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  3. عبدالشکور پربھنی مہاراشٹر جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدارین

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم