بدھ، 5 فروری، 2020

جج کے سامنے قسم کھانے کے بعد جھوٹ کہنا

*جج کے سامنے قسم کھانے کے بعد جھوٹ کہنا*

سوال :

محترم مفتی صاحب کورٹ کے اندر جج کے سامنے یہ کہنا کہ خدا کی قسم جو کہوں گا سچ کہوں گا اور پھر جھوٹ بولنا جیسا کے وکیل نے سکھایا تو اس کا کیا کفارہ ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عبدالعزیز، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : یمینِ منعقدہ یہ ہے کہ آدمی کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے اور جب وہ اس کے خلاف کرے تو اس پر قسم توڑ دینے کا کفارہ لازم ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں کورٹ کے اندر جج کے سامنے قسم کھاکر یہ کہنا کہ میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا تو یہ یمینِ منعقدہ ہوگئی، اب اگر وہ اس وقت جھوٹ کہے گا تو قسم توڑنے کی وجہ سے  اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ نیز قسم توڑنے اور جھوٹ بولنے کا گناہ الگ ہوگا۔ پھر اگر اس جھوٹ کی وجہ سے کسی مالی یا جانی نقصان ہوا ہو تو اس کی تلافی کرنا بھی اس پر ضروری ہے، ورنہ ایسا شخص عنداللہ لائقِ مؤاخذہ ہوگا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لئے ایک ایک جوڑا دے، یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔

قسم  کے کفارہ  میں دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، البتہ گھر میں کھانے کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں دس مسکینوں کو دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اسی کے ساتھ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ مالی  کفارہ  ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے روزہ رکھ کر کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

کفارہ ادا کرنے کی آسان شکل یہ ہے کہ الگ الگ دس مسکینوں کو دونوں وقتوں کے کھانے  کا  پیسہ دیدیا جائے اور اللہ تعالٰی کو راضی کرنے کے لیے کثرت سے ذکر و استغفار کیا جائے اور اللہ تعالٰی سے مغفرت کی امید بھی رکھی جائے۔

فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ۔ (سورہ مائدہ، جزء آیت : ۸۹)

وإن شاء أطعم عشرۃ مساکین  کالإطعام فی کفارۃ الظہار۔ (ہدایۃ، الأیمان، باب ما یکون یمینا و مالایکون یمینا، ۲/۴۸۱)

ولو غدی مسکینا و أعطاہ قیمۃ العشاء أجزأہ و کذا إذا فعلہ فی عشرۃ مساکین۔ (شامی، کتاب الأیمان، مطلب: کفارۃ الیمین، ۵/۵۰۳)

وإن عجز عنہا کلہا وقت الأداء صام ثلاثۃ أیام ولاء۔ (در مختار مع الشامی، ۵/۵۰۵)

أو إطعام عشرۃ مساکین، قال فی الشامیۃ: وفی الإطعام إما التملیک أو الإباحۃ فیعشیہم ویغدیہم (إلی قولہ) وإذا غدی مسکینا وعشی غیرہ عشرۃ أیام لم یجزہ لأنہ فرق طعام العشرۃ علی عشرین کما إذا فرق حصۃ المسکین علی مسکینین (وقولہ تحقیقا أو تقدیراً) حتی لو أعطی مسکینا واحدا فی عشرۃ أیام کل یوم نصف صاع یجوز۔ (شامی، ۵/۵۰۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الآخر 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم