*کپڑے میں تیل ڈال کر وزن بڑھانا*
سوال :
مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ زید ایک کارخانے میں پولسٹر کی گھڑی لگاتا ہے اس کارخانے کا مالک زید سے کہتا ہے کہ گھڑی لگانے کے درمیان کپڑوں پر پانی کا چھڑکاؤ کیا کر ایسا کرنے سے کپڑوں کا وزن بڑھ جاتا ہے تو زید کا ایساکرنا کیسا ہے؟ اگر زید نے انکار کیا تو وہ مالک اس کو کام سے نکال دےگا، اور زید کے لئے اس کام کو کرنا بہت ضرری ہے، ایسی صورت میں زید کیا کرے۔ اگر زید مالک کے بولنے پر ایسا کرتا رہا تو اس کی کمائی کا کیا حکم ہے۔ نیز مالک کا ایسا کرنا اور اس کی آمدنی کا کیا حکم ہے؟ تشفی بخش جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مدثر انجم، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شہرعزیز میں تیار کیے جانے والے پولسٹر کپڑوں میں تیل ڈال کر وزن بڑھانے کے مسئلہ پر تین سال پہلے ہمارے حلقہ دارالافتاء میں علماء کرام کے مابین مذاکرہ ہوا، جس میں سرپرست حلقہ مفتی مسعود اختر قاسمی دامت برکاتہم (جن کا شمار شہر کے جید اور قدیم مفتیان میں ہوتا ہے) نے حتمی موقف تحریر فرمایا تھا جسے ذیل میں من وعن نقل کیا جارہا ہے۔
سوال میں مذکور کپڑے میں تیل کی ملاوٹ کو عام ملاوٹ اور دھوکہ دہی میں شمار کرکے مفتی ابراہیم صاحب نے عدم جواز کا حکم ظاہر کیا، اور مفتی عامر سلمہ نے مطبوعہ فتاوی کی جو مثالیں نقل کی ہیں وہ اس صورت کی ہیں جب عرف عام میں ملاوٹ کا چلن ہوجائے۔
صورتِ مسئولہ میں کپڑے میں تیل کی ملاوٹ پہلے عام نہیں تھی تو اس وقت حکم عدم جواز کا ہی تھا، مگر آج یہ ملاوٹ بالکل عام ہو گئی ہے، اور مجھ ناچیز کی معلومات کے مطابق کپڑے کی دو کوالیٹی 1)گیلا مال اور 2) سوکھا مال، کے نام سے معروف ہوگئی ہے۔ دوسرے تیار مال پیڑھی پر جانے اور بعد ازاں مارکیٹ میں جانے کے بعد اگر کوئی خامی نظر آجائے تو وہاں سے تیار کرنے والے کارخانے کے مالک کو پہلے اس کمی کی اطلاع اور مقام پر پہنچ کر معائنہ کی دعوت دی جاتی ہے اس کے بعد تیار کپڑے کی موجودہ کوالیٹی کے مطابق ہی پیمنٹ کی جاتی ہے۔ واللہ اعلم
اب اس وضاحت کی روشنی میں غش (دھوکہ دہی) کا امکان کم ہو جاتا ہے، اور مطبوعہ فتاوی کی مثالوں میں، دھوکہ نہ ہونے کی قید مذکور ہے۔ لہٰذا اب اس تفصیل اور وضاحت کے بعد مفتی عامر سلمہ کی پیش کردہ مثالیں درست معلوم ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
(مسعود اختر قاسمی، مالیگانوی)
خلاصہ یہ کہ کپڑا خریدنے والوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس کپڑے میں تیل ڈالا گیا ہے، اور وہ اسی اعتبار سے اس کی قیمت دیتے ہیں، چنانچہ یہ دھوکہ اور ناجائز عمل نہیں ہوا، لہٰذا مالک کے کہنے پر زید کا کپڑوں میں تیل ملانا جائز ہے، زید کی کمائی حلال ہوگی نیز زید کے مالک کی آمدنی بھی درست ہے۔ بشرطیکہ وہ کپڑے کو خالص اور سوکھا مال بتاکر فروخت نہ کرے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ : " يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ، مَا هَذَا ؟ ". قَالَ : أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ "، ثُمَّ قَالَ : " مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر : 1315)
عَنْ حَکِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّی يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِکَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَةُ بَيْعِهِمَا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر : 1532)
أي بین کل واحد لصاحبہ ما یحتاج إلی بیانہ من عیب ونحوہ في السلعۃ والثمن، وصدقہ في ذٰلک۔ (شرح النووي علی الصحیح لمسلم، کتاب البیوع، باب ثبوت خیار المجلس للمتبایعین : ۲/۶)
أجمع الفقہاء علی أن البراء ۃ من عیوبٍ سماہا للمشتري ولم یرہا جائزۃٌ۔ (إعلاء السنن، باب البیع بالراء ۃ من کل عیب : ۱۴/۹۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 جمادی الآخر 1441
الجواب صحیح والمجیب مصیب
احقر مسعود اختر قاسمی مالیگانوی غفراللہ لہ
مفتی دارالافتا مدرسۃ البنات حضرت عائشہ صدیقہ ومدرسہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما واقع نورانی مسجد قاضی پورہ شیندورنی تعلقہ جامنیر ضلع جلگاؤں
🌹🌹🌹💐🌹🌹🌹
جواب دیںحذف کریں