جمعہ، 28 فروری، 2020

قرآن مجید میں بال نکلنا

*قرآن مجید میں بال نکلنا*

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ گھر کے قرآن میں بال نکلا ہے، نیا قرآن لانے کے باوجود بھی اس کے کچھ صفحات کے بیچ میں بال نکل رہا ہے دیگر قرآن میں بھی چیک کیا تو اس میں بھی بال نکلا، اس کی کیا حقیقت ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : حافظ فہد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں بال ڈھونڈنے والی حماقت آج کل شروع نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہ بدعقیدگی سالوں پُرانی ہے، جس پر صاحبِ فتاوی رحیمیہ مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری نور اللہ مرقدہ نے بیسیوں سال پہلے مفصل اور کافی شافی جواب لکھا ہے، جسے معمولی کمی بیشی کے ساتھ نقل کیا جارہا ہے۔

کوئی جگہ بالوں سے خالی نہیں ہے، سر کے، بھنوؤں کے، مونچھ کے داڑھی اور بدن کے ہزاروں لاکھوں بالوں میں سے نہ معلوم روز اور کتنے بال گرتے،ٹوٹتے، مونڈوائے اور کتروائے جاتے ہیں وہ ہوا میں اڑ کر اِدھر اُدھر گھس جاتے ہیں، قرآن شریف برسوں سے پڑھے جاتے ہیں اور گھنٹوں کھلے رہتے ہیں ان میں گھر میں گرے ہوئے بال ہوا سے اُڑ کر اور پڑھنے والے کے سر کے بال کھجلانے سے ٹوٹ کر گرتے ہیں اور برسوں اوراق کی تہہ میں دبے رہتے ہیں، نیز یہی اندیشے نئے قرآن میں بھی ہوتے ہیں، کیونکہ یہ سب چَھپائی میں انسانوں کے ہاتھوں سے گذر کر ہی آتے ہیں، پس اگرتلاش کرنے کے بعد ان میں کوئی بال مل جائے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ بلکہ ان میں بال نہ نکلنا حیرت ناک ہے۔

قرآن مجید میں سے نکلے ہوئے بالوں کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک بال سمجھ لینا، ان پر درود خوانی کرنا، ان کی زیارت کرنا، کروانا ایمان کھونے جیسی حرکت ہے اور اسے کرامت سمجھنا بھی جہالت ہے۔
ہر حیرت کی بات کرامت نہیں ہوتی بلکہ استدراج اورشیطانی حرکت بھی ہوسکتی ہے۔

حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دن سیرو سیاحت کرتے ہوئے میرا ایک ایسے جنگل میں گزر ہوا جہاں پانی نہیں تھا، چند دنوں تک وہیں ٹھیرنا پڑا، پانی نہ ملنے کی وجہ سے سخت پیاس لگی، حق سبحانہ تعالیٰ نے بادل کا سایہ میرے اوپر کر دیا اور اس بادل سے چند قطرے ٹپکے جس سے مجھ کو کچھ تھوڑی بہت تسکین ہوئی، اس کے بعد ان بادلوں سے ایک روشنی نکلی جس نے آسمان کے تمام کناروں کو گھیر لیا، اور اس روشنی میں سے ایک عجیب و غریب صورت نمودار ہوئی جو مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی کہ اے عبدالقادر میں تیرا پروردگار ہوں تجھ پر تمام حرام چیزوں کو حلال کرتا ہوں (اس لئے) جو چاہو کرو (کوئی باز پرس نہ ہوگی) میں نے کہا اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم۔اے شیطان ملعون ! راندہ درگاہ دور ہوجا اور بھاگ یہاں سے یہ کیا بات ہے؟ اس کے بعد ہی فوراً وہ روشنی تاریکی سے بدل گئی اور اندھیرا چھا گیا، وہ صورت غائب ہوگئی اور آواز آئی اے عبدالقادر تم نے اپنے علم وفہم کی وجہ سے (جو احکام الٰہی سے حاصل کئے ہیں) اور اپنے مرتبہ کے ذریعہ مجھ سے نجات پائی ہے (ورنہ) میں اس جگہ ستر ۷۰ بزرگوں اورصوفیوں کو گمراہ کر چکا ہوں ایک بھی سیدھے راستے پر قائم نہ رہ سکا۔ (البلاغ المبین، ص ۳۴ /تصنیف حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ)

اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک تعجب خیز چیز کو کرامت سمجھ لینا یہ گمراہی کی علامت ہے، دجال کے کرشمے بڑے تعجب انگیز ہوں گے، مردوں کو زندہ کرنے کا کرشمہ دکھائے گا، اس کے ساتھ اس کی جنت اور دوزخ بھی ہوگی، جو اس کو مانے گا اس کو وہ جنت میں اور نہ ماننے والے کو دوزخ میں ڈالے گا سخت قحط سالی کے زمانے میں کسی کے پاس غلہ نہ ہوگا اس وقت جو اس کو مانے گا اسے وہ دے گا بارش برسائے گا، غلہ پیدا کرے گا، زمین میں مدفون خزانے اس کےتابع ہوجائیں گے ، ایسے حالات میں آج کل کے بال پرست اور ضعیف العقیدہ لوگ اپنا ایمان کیونکر محفوظ رکھ سکیں گے؟
ایمان اور عقیدہ کی سلامتی کے لئے حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مقدس تاریخی درخت جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے محض اس لئے کٹوادیا کہ لوگ اس کی زیارت کے لئے بڑے اہتمام سے آتے تھے، اسی طرح مکہ و مدینہ کے راستہ میں وہ جگہ جہاں آنحضرتﷺ نے نماز ادا فرمائی تھی، وہاں لوگوں کو بڑے اہتمام سے جاتے ہوئے دیکھ کر ان کو تنبیہہ فرمائی اور فرمایا فانما ھلک من کان قبلکھم بمثل ذلک کانوا یتبعون اثار الا نبیاء (تم سے پہلی قومیں اسی لئے ہلاک و برباد ہوئیں کہ تمہارے اس فعل کی طرح وہ اپنے نبیوں کے نشانات کے پیچھے لگا کرتی تھیں۔ (البلاغ المبین ص ۷)

ذکر کردہ دونوں مثالیں مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہیں۔ آدمی کے بدن سے علیٰحدہ شدہ بالوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ ان کو زمین میں دفن کر دیا جائے، لیکن موجودہ دور میں پکے مکانات اور سڑکوں کی وجہ سے اس کا موقع نہ ہوتو ان کو کچرے میں پھینک دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

نوٹ : بھائیو ! قرآن شریف اﷲ کا قانون ہے، یہ ایک کامل اور بہترین دستور العمل ہے اس میں بھلائی اور ہدایت کا راستہ تلاش کرنا چاہئے جسے اختیار کرکے دین اور دنیا کی بھلائی حاصل کر سکتے ہیں۔مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہم نیکی اور ہدایت کے راستہ کی تلاش چھوڑ کر قرآن شریف میں بال تلاش کرنے لگے ہیں اور اگر اتفاق سے کوئی بال نکل آتا ہے تو ا س کی پرستش میں لگ جاتے ہیں (معاذ اﷲ) کتنے افسوس کا مقام ہے۔

اﷲ ہم سب کی بدعقیدگی سے حفاظت فرمائے، کرنے کے کاموں پر توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور فضول کاموں سے ہماری حفاظت فرمائے۔آمین

فاذا قلم اظفارہ او جز شعرہ ینبغی ان یدفن ذلک الظفر والشعر المجزوز فان رمی بہ فلا بأس وان القاہ فی الکنیف اوفی المغتسل یکرہ ذلک۔ (فتاوی عالمگیری، ۵/ ۳۵۸، کتاب اکراھبۃ، الباب التاسع عشر فی الحنان والخصآ ء وقلم الا طفارالخ۔)
فتاوی رحیمیہ : ٣ /٢١-٢٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 رجب المرجب 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم