*عازمِ عمرہ کا ویزہ حکومت منسوخ کردے؟*
سوال :
مفتی صاحب ! آج کی ایک اہم خبر کہ سعودی حکومت نے بڑا فیصلہ لیا ہے کہ حرم شریف میں کرونا وائرس پائے جانے کی وجہ سے عمرہ ویزا پر پابندی لگا دی ہے
صورت مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو حالت احرام میں جدہ سے ہی واپس کر دیا گیا ہے وہ معتمرین حضرات جو حالت احرام میں ہیں وہ احرام سے کیسے نکلیں؟ اور احرام سے نکلتے ہیں تو کیا ان کے اوپر دم واجب ہوگا یا نہیں؟ نیز اگر جو لوگ ہندوستان کے ایئرپورٹ پر ہوں اور احرام باندھ لیا ہو ان کے متعلق جو بھی رہنمائی ہو آپ فرمائیں۔
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسلامی شریعت میں ناگہانی پیش آمدہ حالات کی بھی رعایت رکھی گئی ہے اور جو شخص کسی ناقابل تحمل مشکل میں پھنس جائے تو اس سے خلاصی کی تدبیریں بھی بتائی گئی ہیں، انہی میں سے احرام باندھنے کے بعد حج یا عمرہ میں رکاوٹ پیش آنے کا مسئلہ بھی ہے، گوکہ اصل حکم یہی ہے کہ جس شخص نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہو وہ حج یا عمرہ کے مناسک ادا کئے بغیر حلال نہ ہو، لیکن اگر حالات ایسے بن جائیں کہ وہ حج یا عمرہ کے مناسک ادا نہ کرسکے تو اس کے لئے گنجائش ہے کہ وہ قربانی کرکے حلال ہوجائے اور بعد میں جب سہولت ہو، حج یا عمرہ کی قضا کرے۔ اس مسئلہ کی عملاً تعمیل خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیبیہ میں کرائی گئی، اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :
وَاَتِمُّوْا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ، فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَمِنَ الْہَدْیِ، وَلَا تَحْلِقُوْا رُؤُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ۔ (سورۃ البقرۃ : ۱۹۶)
ترجمہ : اور حج اور عمرہ کو اللہ واسطے پورا کیا کرو، اور اگر تم روک دیئے جاؤ تو تم پرحسب سہولت ایک قربانی واجب ہے اور تم مت منڈواؤ اپنے سروں کو قربانی کا جانور اپنے موقع محل پر پہنچنے سے قبل۔
اس آیت میں موقع محل سے مراد حضراتِ حنفیہ نے حدودِ حرم کو لیا ہے، لہٰذا دیگر جگہوں پر احصار کی قربانی کافی نہ ہوگی۔ (معارف القرآن وغیرہ)
احصار کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں، مثلاً :
۱) کسی دشمن یا زور آور کے ذریعہ سفر میں رکاوٹ پیش آنا۔
٢) حکومت کی طرف سے قید کردیا جانا۔
۳) حج یا عمرہ کا ویزا حکومت کی طرف سے منسوخ کردیا جانا۔
۴) حادثہ میں اس طرح زخمی ہوجانا کہ سفر ممکن نہ رہے۔
۵) بدن کی ہڈی ٹوٹ جانا یا لنگڑا ہوجانا کہ چلنا ممکن نہ ہو۔
٦) سفر کی وجہ سے مرض میںاضافہ کا غالب گمان ہونا۔
۷) سفر خرچ ضائع ہوجانا اور اخراجات کا کوئی متبادل نظم نہ ہوسکنا۔
٨) سواری کا نظم مفقود ہونا جب کہ دوری اس قدر ہو کہ پیدل چلنے پر قدرت نہ ہو، مثلاً احرام باندھنے کے بعد جہاز چھوٹ جائے اور بعد میں کوئی جہاز نہ ہو۔
٩) بیوی نے شوہر کی اجازت کے بغیر حج فرض کا یا نفلی حج وعمرہ کا احرام باندھ لیا ہو، اس کے بعد شوہر اس کو مناسک ادا کرنے سے منع کردے۔
مندرجہ بالا صورتوں یا ان جیسے حالات سے جو شخص دوچار ہو اس پر احصار کے احکامات جاری ہوں گے۔
واما الاحصار فی عرف الشرع : فہو منع المحرم عن الوقوف والطواف، سواء کان من العدو او المرض او الحبس او الکسر اوالعرج او غیرہا من الموانع من اتمام ما احرم بہ حقیقۃ او شرعاً۔ (البحر العمیق ۴؍۲۰۶۸، مناسک ملا علی قاری ۴۱۳، غنیۃ الناسک جدید ۳۱۰)
درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں جو لوگ عمرہ کا احرام باندھ کر جدہ میں موجود ہیں پھر احصار پیش آگیا یعنی حکومت کی جانب سے ویزہ کی منسوخی کا حکم آگیا اور انہیں واپس کیا جارہا ہے تو ان پر حدودِ حرم میں ایک دم (دم میں ایک بکری یا بڑے جانور میں ایک حصہ دینا ہے، اور اس کے گوشت کا مصرف فقراء ومساکین ہوتے ہیں) دینا اور بعد میں عمرہ کی قضا بھی واجب ہوگی۔ نیز وہ لوگ جو اپنے ملک میں ہی ہوں اور احرام پہن لیا ہو اور نیت کرکے تلبیہ بھی پڑھ لیا ہو ان کا شرعی احرام جاری ہوگیا ہے، لہٰذا ویزہ کی منسوخی کے بعد ان پر بھی ایک دم اور بعد میں کبھی بھی عمرہ کی قضا واجب ہوگی۔
البتہ وہ لوگ جو اپنے ملک میں ہی ہوں اور انہوں نے احرام پہن لیا ہو لیکن نیت کرکے تلبیہ نہ پڑھا ہو، ان کا احرام ابھی شروع نہیں ہوا، لہٰذا ان پر کچھ بھی واجب نہیں، وہ احرام کا کپڑا اتار کر اپنے سِلے ہوئے کپڑے پہن لیں۔
نوٹ : حنفیہ کے نزدیک اصل حکم تو یہی ہے کہ محصر (جس پر پابندی ہو) کو احرام کھولنے کے لئے حدودِ حرم میں ہی قربانی کرنی چاہئے، لیکن اگر ایسی صورت پیش آئے کہ محصر کے لئے حدودِ حرم میں قربانی ممکن نہ ہو، مثلاً کسی شخص کو ایئرپورٹ ہی سے واپس کردیا جائے اور اس شخص کا کوئی جانکار مکہ معظمہ میں موجود نہ ہو یا اس سے رابطہ کی کوئی شکل نہ ہو تو اس کے لئے یہ بھی گنجائش ہے کہ حدودِ حرم کے علاوہ جہاں ممکن ہو قربانی کرکے حلال ہوجائے۔ اگر قربانی کیے بغیر احرام کھول دے گا تو اس پر مزید ایک دم اور واجب ہوجائے گا۔ دمِ احصار میں جانور ذبح ہونے کے بعد آدمی خود بخود حلال ہوجاتا ہے، حلق یا قصر کرانا لازم نہیں، البتہ اگر کرالے تو بہتر ہے۔
فان احصر فقط عن نسک واحدٍ، فیکفیہ دم واحد للتحلل، وعلیہ قضاء ما تحلل عنہ، فان کانت عمرۃ فعمرۃ یقضیہا۔ (البحر العمیق ۴؍۲۰۹۷)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ عِکْرِمَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کُسِرَ أَوْ عَرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ قَالَ عِکْرِمَةُ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَا صَدَقَ۔ (ابوداؤد)
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 رجب المرجب 1441
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریں