*کیا زنا قرض ہے؟*
سوال :
مفتی صاحب! زنا قرض ہے یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء کی کیا رائے ہے؟ ہمارے شہر کے ایک عالم کے بیان میں کئی مرتبہ سن چکا ہوں کہ زنا قرض ہے، اور یہ قرض زانی کی بہن بیٹی کو چکانا پڑے گا۔ اس کے برعکس مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی زنا کرے اور اس کی سزا اس کی بہن بیٹی کو ملے، زنا قرض نہیں ہے۔ آپ ان دونوں رائے پر روشنی ڈالیں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زنا انتہائی سنگین اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور بروز حشر ایسے لوگوں کا انجام انتہائی دردناک ہوگا۔ معراج کی شب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زناکاروں کو ہورہا عذاب دکھایا گیا کہ ایک جگہ تنور کی طرح ایک گڑھا ہے جس کا منہ تنگ ہے اور اندر سے کشادہ ہے برہنہ مرد و عورت اس میں موجود ہیں اور آگ بھی اس میں جل رہی ہے جب آگ تنور کے کناروں کے قریب آجاتی ہے تو وہ لوگ اوپر اٹھ آتے ہیں اور باہر نکلنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور جب آگ نیچے ہوجاتی ہے تو سب لوگ اندر ہوجاتے ہیں۔
اسلامی حکومت میں اگر غیرشادی شدہ لڑکی یا لڑکا زنا کرے تو اسے سو کوڑے سزا کے طور پر مارنے کا حکم ہے اور اگر شادی شدہ مرد و عورت یہ قبیح اور غلیظ عمل کریں تو انہیں سنگسار یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم اور ضروری ہے کہ وہ اس گناہ عظیم کے قریب بھی نہ جائے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ زنا قرض ہے، یہ حدیث شریف کے الفاظ نہیں ہیں، بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے جو مکمل درج ذیل ہے :
عفوا تعف نساوٴکم في المحرم وتجنبوا ما لا یلیق بمسلم
إن الزنا دین فإن أقرضتہ کان الوفا من أھل بیتک فاعلم
ترجمہ : پاکدامن رہو تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی اور بچو اس سے جو مسلمان کے لائق نہیں
بے شک زنا قرض ہے اگر تونے اس کو قرض لیا تو ادئیگی تیرےتیرے گھر والوں سے ہوگی اس کو جان لے
چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو حرف آخر اور قطعی نہ سمجھا جائے، کیونکہ اگر اسے قطعی سمجھ لیا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ خدانخواستہ زانی کی بہن بیٹیاں بھی زانی ہوں گی۔ اگر ایسا ہوا تو بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے، گھر کے ایک بگڑے ہوئے فرد کی وجہ سے دوسروں پر بدگمانی پیدا ہوگی، لہٰذا یہ سمجھ لیا جائے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول اس گناہ کی نحوست بتانے اور زجر وتوبیخ پر محمول ہے، حقیقت پر نہیں۔
البتہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : عِفُّوا تَعِفُّ نِسَاؤُكُمْ ۔
ترجمہ : پاک دامن رہو تمھاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔ (معجم کبیر طبرانی : ۱۱/۱۷۳ - مستدرک حاکم : ۱۷/۹۸)
اس حدیث شریف کے پیشِ نظر یہ تو کہا جاسکتا ہے تم پاکدامن رہوگے تو اس کی برکت سے تمہاری عورتیں بھی پاکدامن رہیں گی، لیکن اس حدیث کا مفہوم مخالف یعنی اس کے اُلٹے معنی لینا کہ اگر کوئی شخص زنا کرے تو اس کے گھر کی عورتیں بھی زنا جیسے گناہ میں ملوث ہوجائیں گی، درست نہ ہوگا۔ کیونکہ احناف کے یہاں نصوصِ شرعیہ یعنی قرآن و حدیث میں مفہومِ مخالف معتبر نہیں ہے، البتہ کُتُب فقہ کی عبارتوں میں مفہوم مخالف معتبر ہے بشرطیکہ وہ مفہوم مخالف کسی صریح فقہی عبارت کے معارض نہ ہو۔
پاکستان کے جید عالم دین اور محقق مفتی عبدالباقی صاحب اخونزادہ اسی عنوان کے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں کہ اللہ رب العزت ظالم نہیں ہیں، اور نہ کسی ایک شخص کے گناہوں کی سزا دوسروں کو دیں گے، البتہ علماء امت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کھلم کھلا زنا کرے اور اپنے اس فسق اور گناہ پر اصرار کرتا رہے تو یقیناً اس کے گھر والے جو اس کو یہ عمل کرتے دیکھ رہے ہوں گے انکے دلوں سے بھی اس گناہ کی برائی ختم ہوجائے گی، اور وہ بھی اس فعل میں مبتلا ہوجائیں گے، لیکن اگر کوئی کسی غلطی کو کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اسے اپنے عمل پر ندامت ہو تو ان شاءاللہ اس کی مغفرت اور رحمت بہت وسیع اور اللہ رب العزت کی ذات جس عمل کو خود ناپسند کرتی ہے اس عمل میں اپنے بندوں کو کس طرح سزا کے طور پر مبتلا کرسکتی ہے؟ (مستفاد : تنبیہات)
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
زنا حقوق اللہ میں سے ہے اور حقوق اللہ صدق دل سے توبہ کرلینے اور اپنے اس فعل پرنادم ہونے سے معاف ہوجاتا ہے، آپ نے جو یہ سن رکھا ہے کہ ”زنا ایک قرض ہے جو زنا کرنے والے شخص کی ماں، بہن، بیوی، یابیٹی کو لوٹانا ہوتا ہے“ اس کی کوئی اصل نہیں ہے؛ بلکہ یہ آیت قرآنیہ ”ولاتزروازرة وزر أخری“ ( کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہ اٹھائے گا)کے بھی خلاف ہے۔ (رقم الفتوی : 150964)
درج بالا تفصیلات کے بعد یہی کہا جائے گا کہ سوال نامہ میں مذکور شہر کے عالم صاحب کی بات ناقص اور وضاحت طلب ہے، ان کی بہ نسبت مفتی طارق مسعود صاحب کی بات زیادہ واضح اور صحیح ہے۔
مفہوم المخالفۃ لم یعتبرہ الحنفیۃ، والشافعي اعتبرہ؛ وفي ’’جامع الرموز‘‘ في بیان الوضوء: مفہوم المخالفۃ کمفہوم الموافقۃ معتبر في الروایۃ بلاخلاف؛ لٰکن في ’’اجازۃ الزاہري‘‘: أنہ غیر معتبر۔ والحق أنہ معتبر إلاأنہ أکثري لاکلي کما في حدود النھایۃ وغیرہا۔ (کشاف اصطلاحات الفنون:۳،۴۷۶/بحوالہ دستور الطلباء)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 رجب المرجب 1441
Masha Allah
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
حذف کریںالسلام علیکم!
جواب دیںحذف کریںابھی مغرب کی نماز کے بعد ذہن کے کسی گوشے میں یہ سوال آیا تھا ، الحمدللہ سوال کرنے سے پہلے ہی جواب مل گیا. ماشاء اللہ تبارک اللہ
اللہ تعالی جزائے خیر دے آمین
جزاک اللہ مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںمیں خود اس بات حدیث سمجھتا تھا اللہ تعالیٰ آپ کو دارین میں خوب جزاۓ خیر عطا فرمائے آمین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںشیخ الحدیث و مفسر قرآن
ڈاکٹر مولانا منظور احمد مینگل صاحب دامت برکاتہم العالیہ
بھی زنا ایک قرض ہونے اور اس کی ادائیگی ماں بہن بیٹی اور بیوی سے ہونے کے قائل ہے
یوٹیوب پر انکی کلپ موجود ہے ذرا اسکی بھی وضاحت فرمادیجئیے
جزاک اللہ خیرا و بارک اللہ فی علمک و عملک و عمرک
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںاس کی لنک ہمارے پرسنل واٹس اپ نمبر پر ارسال فرمادیں۔
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںلیکن تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں جیسے سنار کے منہ بولے بیٹے کی ماں سے زنا کی کوشش اور پاکباز بادشاہ کی شہزادی سے کسی نوکر کی چھیڑ چھاڑ ۔۔۔!!!
جواب دیںحذف کریںMashaallah Mufti sahab
جواب دیںحذف کریں