پیر، 24 فروری، 2020

حجامہ کی شرعی حیثیت اور اس کے احکام

*حجامہ کی شرعی حیثیت اور اس کے احکام*

سوال :

سوال : محترم مفتی صاحب! اس عنوان سے اکثر کہیں نہ کہیں پڑھنے میں آتا ہے کہ حجامہ ایک سنت ہے۔ فلاں فلاں بیماری سے شفاء کی بات کہی جاتی ہے، ان تمام باتوں سے پرے دین و حدیث کی روشنی میں واضح فرما دیں کہ واقعی میں یہ ایک سنت عمل ہے؟ اور کن مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ کروایا اور اس سے مستفیض ہوئے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حجامہ یعنی جسم کے مخصوص حصوں پر کٹ لگاکر فاسد اور خراب خون نلکی وغیرہ سے کھینچ لینا، ایک مسنون علاج ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عربوں کے یہاں رائج تھا، اور یہ بہت سی بیماریوں کا کامیاب اور بہترین علاج ہونے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے روکنے کا ذریعہ بھی تھا۔ اس کے طریقہ کار میں اگرچہ تبدیلی ہوسکتی ہے، لیکن چونکہ حجامہ کا مقصود فاسد خون نکالنا ہے۔ لہٰذا موجودہ دور میں پلاسٹک کپ کے ذریعے فاسد اور خراب خون نکالنا بھی حجامہ کہلائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں حجامہ کی ترغیب دی ہے، اور اس کے مقابلے میں کیّ یعنی گرم لوہے سے داغ دینے کے علاج سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ کُتُبِ احادیث میں باب الحجامۃ کے نام سے ایک عنوان لگاکر اس میں حجامہ سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے اقوال وافعال ذکر کیے جاتے ہیں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ حجامہ سنن زوائد میں سے ہے جن میں عادت ورواج کا پہلو ہوتا ہے، عبادت کا پہلو نہیں۔ سنن ہدی میں سے نہیں ہے جن میں عبادت کا پہلو ہوتا ہے، سنن زوائد کو اختیار کرنا افضل وبہتر ہے اور یہ محبت کی قبیل سے ہے جب کہ سنن ہدی کو اختیار کرنا مؤکد ہے، اور انہیں مستقل چھوڑنے والا لائقِ ملامت ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ سنت کی ادائیگی کی نیت سے بطورِ علاج یا بطورِ مدافعت حجامہ کروایا جائے تو اس پر ثواب کی امید ہے، اور نہ کرنے پر کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔

متعدد روایات ملتی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجامہ کروانے اور اس کے فوائد کا ذکر ملتا ہے، ان میں سے چند روایات درج ذیل ہیں :

١) حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شفا تین چیزوں میں پوشیدہ ہے :

۱) حجامہ کے ذریعہ ضرب لگوانے میں۔
۲) شہد کے استعمال میں۔
۳) آگ سے داغنے میں۔
تاہم میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے روکتا ہوں۔

عن ابن عباسؓ عن النبيﷺ قال: الشِّفَائُ فِيْ ثَلاَ ثَۃٍ: فِيْ شَرِطَۃِ مِحْجَمٍ أو شَرْبَۃِ عَسَلٍ أو کیّۃٍ بنارٍ، وَأَنْھَی أُمُّتِي عَنِ الْکَيَّ۔ (صحیح البخاری، الطب رقم : ۵۷۸۱)

٢) حضرت ابو ہریرہ ؓ حضور اکرمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو چاند کی سترہ تاریخ کو حجامہ لگوائے تو یہ حجامہ لگوانا ہر بیماری کے لیے شفا ہے۔

وعن أبي ہریرۃ ؓ قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ: مَنْ احْتَجَمَ لِسَبْعَ عَشَرَۃَ مِنْ الشَّھْرِ، کَانَ لَہُ شِفَائٌ مِنْ کُلِّ دَائٍ۔(رواہ  الحاکم وقال: صحیح علی شرط الشیخین، ووافقہ الذھبي)

٣) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ پر جادو کیا گیا تو آپﷺ نے اپنے سر پر حجامہ لگوایا۔

قال ابن القیم في ’’زاد المعاد‘‘ (۴/۱۲۵) : وقد ذکر أبو عبید في کتاب ’’غریب الحدیث‘‘ لہ۔ بإسنادہ عن عبد الرحمن بن أبي لیلی: أن النبيﷺ احتجم علی رأسہ بقرن حین طُبَّ، قال أبو عبید: معنی ’’طُبَّ‘‘ أي سُحِرَ۔

٤) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ حجامہ سے علاج کرنے والا کیا ہی اچھا آدمی ہے کہ (فاسد) خون نکال دیتا ہے اور پشت کو ہلکا کر دیتا ہے اور نظر کو تیز کرتا ہے، اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات نبی اکرمﷺ کا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ہوا انہوں نے آپﷺ سے کہا کہ آپ حجامہ کو لازم پکڑیں۔

عن ابن عباسؓ قال: قَالَ نَبِيُّ اللّٰہِ ﷺ: نَعْمَ الْعَبْدُ الْحَجَّامُ، یَذْھَبُ بِالدَّمِ، وَیُخِفُّ الصُّلْبَ، وَیَجْلُوْ الْبَصَرِ، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ حِیْنَ عُرِجَ بِہِ مَا مَرَّ عَلَی مَلَأٍ مِنْ الَمَلَا ئِکَۃِ إِلَّا قَالُوا: عَلَیْکَ بِالْحَجَامَۃِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٠٥٣)

٥) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں اپنے سر میں سینگی لگوائی، راوی کہتے ہیں کہ یہ کسی تکلیف کی بناء پر تھا۔ (یعنی سر میں تکلیف کی وجہ سے آپ نے حجامہ کروایا)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فِي رَأْسِهِ مِنْ صُدَاعٍ كَانَ بِهِ أَوْ شَيْءٍ كَانَ بِهِ بِمَاءٍ يُقَالُ لَحْيُ جَمَلٍ۔ (مسند احمد)

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سترھویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کو سینگی (حجامہ) کھنچوانا پسند فرماتے تھے۔ (شرح السنۃ)

مذکورہ تاریخوں کے علاوہ دوسرے دنوں میں بھی حجامہ کیا جاسکتا ہے، البتہ منگل کے دن احتیاط کرنا چاہئے اس لئے کہ حضرت کبشہ بنت ابی بکرہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد اپنے گھر والوں کو منگل کے دن سینگی لگوانے سے منع کرتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے تھے کہ منگل کا دن خون کے غلبہ کا دن ہے اور اس دن ایسی گھڑی آتی ہے خون بند نہیں ہوتا (لہٰذا اس دن خون نکلوانے کی صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ وہی گھڑی پڑ جائے اور خون رکنے کا نام نہ لے جس سے ہلاکت بھی واقع ہوسکتی ہے،) (ابوداؤد) تاہم بوقت ضرورت منگل کے دن بھی حجامہ کیا جاسکتا ہے۔

وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يستحب الحجامة لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدى وعشرين۔ رواه في شرح السنة۔ (حسن)

وعن كبشة بنت أبي بكرة أن أباها كان ينهى أهله عن الحجامة يوم الثلاثاء ويزعم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يوم الثلاثاء يوم الدم وفيه ساعة لا يرقأ۔ (ابوداؤد)

*آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے جسم اطہر کے مختلف حصوں پر حجامہ کرانا ثابت ہے۔*

*گردن کی دونوں جانب کی رگوں میں اور مونڈھوں کے درمیان :*

أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ ثَلَاثًا فِي الْأَخْدَعَيْنِ، وَالْكَاهِلِ.
(ابوداؤد:3860)

نَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، بِحِجَامَةِ الْأَخْدَعَيْنِ، وَالْكَاهِلِ.
(ابن ماجہ : 3482)

*سر میں :*

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فِي رَأْسِهِ مِنْ دَاءٍ كَانَ بِهِ۔ (ابوداؤد: 1836)

*سر پر مانگ کی جگہ میں :*

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْتَجِمُ عَلَى هَامَتِهِ، وَبَيْنَ كَتِفَيْهِ۔ (ابوداؤد:3859)

*سر کے درمیانہ حصہ میں :*

احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، بِلَحْيِ جَمَلٍ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، وَسَطَ رَأْسِهِ.(ابن ماجہ : 3481) قوله:”بلحى جمل“ في النهاية موضع بين مكة والمدينة.

*سرین پر :*

عَنْ جَابِرٍ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ احْتَجَمَ عَلَى وِرْكِهِ، مِنْ وَثْءٍ كَانَ بِهِ.(ابوداؤد:3863)عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ: سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ عَلَى جِذْعٍ، فَانْفَكَّتْ قَدَمُهُ. قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ عَلَيْهَا مِنْ وَثْءٍ.(ابن ماجہ : 3485)

*قدموں کے ظاہری حصہ میں :*

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ عَلَى ظَهْرِ الْقَدَمِ مِنْ وَجَعٍ كَانَ بِهِ۔ (ابوداؤد:1837)
( کتاب الطب، مفتی سلمان زاہد)

فالبلاد الحارۃ والأزمنۃ الحارۃ والأمزجۃ الحارۃ التي دم أصحابہا في غایۃ النضج الحجامۃ فیہا أنفع من القصد بکثیر الخ۔ وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: خیر ما تداویتم بہ الحجامۃ إشارۃ إلی أہل الحجاز والبلاد الحارۃ؛ لأن دماء ہم رقیقۃ۔ (زاد المعاد : ۴؍۵۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الآخر 1441

2 تبصرے:

  1. ہم تو اب تک بدھ کا دن سن رہے تھے کہ بدھ کے دن نہیں کیا جاتا

    جواب دیںحذف کریں
  2. بدھ کے ساتھ سنیچر کو بھی حدیث میں منع ہے منگل کی بات نظر سے نہیں گزری

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم