*بہو سے روزگار کا کام لینا اور اس کی اُجرت خود رکھ لینا*
سوال :
بعض گھرانوں میں بہو سے گھر کے پورے کام کے علاوہ ان سے روزگار کا کام بھی لیا جاتا ہے، مثلاً چرخہ یا تراشن بھروانا، ریڈی میڈ کپڑے اورتھیلی سلوانا، یا لیڈیز دکان میں ان کو بیٹھانا، بہو خواہی نہ خواہی گھر کے کاموں کے ساتھ ان کاموں کو کرنے پر بھی مجبور ہوتی ہے، وہ صبح سویرے بیدار ہوتی ہے تو رات گیارہ بارہ بجے تک آرام کا موقع نہیں ملتا، قیلولہ کی سنت کو تو ایسے گھرانوں میں عورتوں کے لیے عیب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کاموں سے ملنے والی آمدنی میں سے انہیں کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔ کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے؟ کیا اسے بھی مروت وشرافت اور اخلاقی ذمہ داری قرار دیا جائے گا؟ کیا بہو کو یا اس کے سرپرست کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان کاموں کے کرنے سے انکار کردیں؟ یہ بھی واضح ہوکہ ایسی بہو کا شوہر برسر روزگار ہوتا ہے۔ گزارش ہے کہ مفصل انداز میں جواب مرحمت فرمائیں ۔ بارک اللہ علما
(المستفتی : ابو عاطفہ رحمانی، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ۔ مرد عورتوں پر نگران اور ان کے محافظ ہیں ان سے برتر ہیں، اور یہ ایک قدرتی امر ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور پھر مردوں کی برتری کی دلیل بھی قرآن میں بیان فرمادی۔ ” وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ “ کہ مرد اپنی کمائی عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کے کفیل ہیں اور مشقت کے کام مرد کے سپرد کئے ہیں، کمانا مرد کے ذمہ ہے۔ عورت کا کام گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہيں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اور رہائش دو۔ (مسلم)
درج بالا آیت اور حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شوہر کے بیوی پر کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا اور پورا کرنا شریعت مطہرہ کی رُو سے اس پر واجب ہے، بیوی کے حقوق شوہر پر مہر، نان و نفقہ، لباس، مکان، بیوی کی عزت کی حفاظت، عدل وانصاف وغیرہ ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں گھر کے کام کاج کے علاوہ سوال نامہ میں مذکور کام مثلاً چرخہ یا تراشن بھرنا، ریڈی میڈ کپڑے اورتھیلی سلنا یا لیڈیز دکان میں بیٹھنا وغیرہ پردہ کی رعایت کے ساتھ اگر بہو برضا و رغبت کرے اور اس کی اُجرت خود سے شوہر یا ساس کو دے دے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
اور اگر شوہر برسرروزگار ہوتو اس طرح کے کام بہو کی اخلاقی ذمہ داری بھی نہیں ہے، لہٰذا جب وہ یہ کام کرے گی تو خود اس کی اُجرت کی حقدار ہوگی، یہ رقم شوہر یا ساس کو دینا ضروری نہیں، اور ساس یا شوہر کا خود سے رقم رکھ لینا بھی درست نہیں۔ نیز اگر وہ یہ کام نہ کرنا چاہے تو شرعاً اس پر کوئی حرج بھی نہیں ہے، اور نہ ہی کسی کو اُس پر اعتراض کا حق ہوگا۔ اسی طرح بہو کی طرف سے اس کے سرپرست کو بھی انکار کا حق ہوگا، کیونکہ اس طرح کے کام بہرحال بہو کی ذمہ داریوں میں نہیں ہیں۔
وکون الرجال قوامین علی النساء متکفلین معاشہن وکونہن خادمات حاضنات مطیعات سنۃ لازمۃ وأمراً مسلمًا عند الکافۃ، وفطرۃ فطر اللّٰہ الناس علیہا لا یختلف في ذٰلک عربہم ولا عجمہم۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ : ۱/۱۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الآخر 1441
ماشاءاللہ تبارک الله
جواب دیںحذف کریں