*فُل یوز نامی رہبر فروخت کرنا*
سوال :
مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ پوچھنا ہیکہ امتحانات کے دنوں میں ایک پبلشر کی جانب سے *فل یوز* نامی ایک گائیڈ فروخت کے لئے شائع کیا جاتا ہے جس کی سائز اتنی کم ہوتی ہے ایک کپڑوں کے جیب میں بھی آرام سے رکھا جاسکتا ہےـ اس پاکٹ سائز کی وجہ بظاہر تو پبلشر یہ بتاتا ہیکہ اسکی سائز اس لئے اتنی کم ہے کہ طلبہ اسے اپنی جیب میں ہر وقت رکھ سکیں اور جب جہاں چاہے اس کا مطالعہ کرسکےـ لیکن برخلاف اس کے دیکھنے میں یہ آتا ہیکہ 95% طلبہ اس کا استعمال نقل نویسی کے لئے کرتے ہیں اور اس پاکٹ سائز گائیڈ کو امتحان گاہ کسی بھی طرح چھپا کر لے جاتے ہیں ـ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ نقل نویسی زندگی برباد کرنے والا کام ہے۔ لیکن اصل مسئلہ پوچھنا یہ ہیکہ اس کے 95% ناجائز استعمال کو دیکھتے ہوئے بھی اسے شائع کرنا اور دکانداروں کا کچھ پیسوں کے لئے اسے فروخت کرکے طلبہ کی زندگی سے کھلواڑ کرنا کیسا ہے؟ کیا شریعت دکانداروں کو فل یوز فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہے؟
(المستفتی : ریحان انصاری، اسلامپورہ، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ فُل یوز نامی رہبر میں اپنی ذات کے اعتبار سے شرعاً کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ اس کا پورا دارومدار استعمال کرنے والے پر ہے، پھر اسے تیار کرنے والے کی نیت بھی درست ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی چاقو کا جائز اور درست استعمال کرتے ہوئے اس سے کسی حلال جانور کو شرعی طریقہ پر ذبح کرکے اپنی بھوک مٹائے، یا پھر اس کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی کا ناحق قتل کردے اور دنیاوی عدالتوں کی سزا کے ساتھ جہنم کا مستحق بھی ٹھہرے۔ لہٰذا جس طرح چاقو کی تجارت کو کوئی ناجائز نہیں کہتا اسی طرح اس طرح کے رہبر کی بیع کو بھی ناجائز نہیں کہیں گے۔کیونکہ فُل یوز کا استعمال صحیح اور غلط دونوں مقاصد کے لئے ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں فُل یوز رہبر کا فروخت کرنا جائز ہے اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے، اب اگر کوئی اس رہبر کا غلط استعمال کرے تو اس کا گناہ خود استعمال کرنے والے پر ہوگا، پبلشر اور دوکاندار اس کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ تاہم اگر کوئی دوکاندار اس نیت سے اسے بیچنے سے اجتناب کرے کہ طلباء اس کا غلط استعمال کرکے اپنی دنیا وآخرت برباد کرتے ہیں تو اس نیک مقصد کی وجہ سے ایسا دوکاندار بلاشبہ اجر وثواب کا مستحق ہوگا۔ لیکن وہ خود فروخت کرنے والوں پر نکیر نہ کرے۔
نوٹ : امتحانات کا مقصد، نصاب سے مطلوب، طلباء کی استعداد وصلاحیت کو جانچنا اور پرکھنا ہوتا ہے، اس لیے کسی طالب علم کا بحالت ِامتحان، کسی کی جوابی کاپی دیکھ کر نقل کرنا، اپنے ساتھ جوابی تحریر لے جانا یا قبل از وقت سوالیہ پرچوں کسی طرح حاصل کرلینا، خلافِ قانون ہونے کے ساتھ خلافِ شریعت بھی ہے، ایسا کرنا خیانت اور دھوکہ ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے، اگر نقل نویسی اُستاذ کی اجازت سے ہو تو اُستاذ اور طالب علم دونوں خائن اور گناہگار ہوں گے، اور اگر اُستاذ کی اجازت کے بغیر ہے تو صرف طالب علم ہی خائن ہوگا۔ لہٰذا طلباء کو ہمیشہ یہ باتیں پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على عدم الإباحة و هو مذهب الشافعي۔ (الاشباه و النظائر : ٢٩٩)
المختار أن الأصل في الإباحة عند جمهور أصحابنا۔ (غمز عيون البصائر على الاشباه و النظائر ص ٢٠٨ تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة)
قال اللہ تعالیٰ : وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان ۔ (سورۃ المائدۃ ، آیت :۲)
قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : من غشنا فلیس منا ۔ (الصحیح لمسلم :۱/۷۰ ، باب قول النبي ﷺ : من غشنا فلیس منا)
عن سفیان بن أسید الحضرمي قال : سمعت رسول اللہ ﷺ یقول کبرت خیانۃ أن تحدث أخاک حدیثًا ہو لک بہ مصدق وأنت لہ بہ کاذب ۔ (ص/۶۷۹ ، کتاب الأدب ، باب في المعاریض، سنن ابی داؤد)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 جمادی الآخر 1441
🌹
جواب دیںحذف کریں