*سودی رقم اجتماعی طور پر جمع کرکے تقسیم کرنا*
سوال :
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہونگے۔
عرض تحریر یہ ہے کہ ناچیز کاروبار کے سلسلے میں ایک کمپنی سے منسلک ہے اور ماہانہ تنخواہ بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے، ظاہر سی بات ہے بینک میں آنے سے سود کا پیسہ بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ ابھی تک ناچیز بنا حساب کے کچھ رقم نکال کر بنا ثواب کی نیت (ایسا کئی مفتیان کرام سے استفسار کرنے پر پتہ چلا) کے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مختلف طریقوں سے مدد کیا کرتا تھا۔ اب چونکہ اسی فیلڈ کے کئی دوستوں کو بھی یہی عمل کرتے دیکھا تو ناچیز کے دل میں خیال آیا کے سود کے پیسوں کو اجتماعی طور پر جمع کر کے کسی غریب کے کام میں لایا جا سکتا ہے؟
اس کی کیا شکل ہوگی؟
سود کے پیسوں کا حساب کرنا ضروری ہوگا؟
نیت کا کتنا عمل دخل ہے؟
میڈیکل کے لائن سے کوئی مدد کی جا سکتی ہے انہیں پیسوں سے؟
جلد از جلد قرآن وحدیث اور مسائل کی کتابوں کے حوالے سے ناچیز کی تشنگی کو دور فرمائیں۔
اللہ بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
(المستفتی : نثار احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بینک اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم سے ملنے والی سود کی رقم کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، لیکن اگر مسلمان یہ رقم بینک میں ہی چھوڑ دیں تو اس بات کا غالب گمان ہے کہ یہ رقم دیگر مذاہب کی نشر واشاعت اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف استعمال کی جائے گی۔ لہٰذا بینک سے سودی رقم نکال لی جائے اور بلا نیت ثواب فقراء اور مساکین (مستحقین زکوٰۃ) میں تقسیم کی جائے۔
سودی رقم اجتماعی طور پر بھی جمع کرکے غرباء ومساکین میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ اس کی بہتر شکل یہ ہوگی کہ تمام ساتھی ایک معتبر شخص کے پاس اپنی رقومات جمع کرادیں اور اسے اس کی ذمہ داری دے دی جائے کہ وہ تحقیق کرکے ضرورت مندوں کی مدد کردیا کرے۔ یا پھر ہر ہفتہ میٹنگ رکھ کر یا واٹس اپ وغیرہ پر گروپ بناکر تمام اراکین مشورے سے کسی مستحق کے لیے مخصوص رقم طے کرکے اسے دے دیا کریں۔
سودی رقم کا حساب رکھنا ضروری ہوگا۔ اس سلسلے میں قطعاً غفلت نہ کی جائے۔
سودی رقم بلانیتِ ثواب غریبوں میں تقسیم کی جائے گی، کیونکہ یہ مالِ حرام ہے۔ اور حرام مال سے صدقہ کرنا بذات خود گناہ کی بات ہے۔ نیز مستحق شخص کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سودی رقم ہے، بلکہ اسے امداد اور ھدیہ کہہ کر بھی یہ رقم دی جاسکتی ہے۔
سودی رقم سے غریبوں کی مدد میڈیکل لائن سے بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کی شکل یہ ہوگی کہ مستحق کو دوا وغیرہ کی شکل میں یہ رقم دے دی جائے ۔ اور اگر ڈاکٹر وغیرہ کی فیس بھرنا ہوتو اس مستحق شخص کو سودی رقم دے دی جائے جسے وہ فیس میں بھردے، براہِ راست آپ کا ڈاکٹر کو یہ رقم دینے کی صورت میں تملیک یعنی مستحق شخص کو اس مال کا مالک بنانا نہیں پایا جائے گا جس کی وجہ سے سودی رقم ادا نہیں ہوگی۔
عن قتادۃ، عن أبي الملیح عن أبیہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یقبل اللّٰہ عزوجل صدقۃ من غلول۔۔۔ الخ۔ (صحیح مسلم، رقم : ۲۲۴)
التصدق من مال الحرام غیر مقبول حتی قال علماؤنا : من تصدق بمال حرام یرجوا الثواب کفر۔ (بذل المجہود : ۱؍۳۷)
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء،۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 جمادی الآخر 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں