*امام و مؤذن کے لیے نذرانہ جمع کرنے کی ایک صورت کا حکم*
سوال :
مالیگاؤں کی ایک مسجد میں شب قدر کے چندے کے نام سے دو تین مہینے پہلے ڈبے مسجد میں اعلان کرکے تمام مصلیان کوبانٹے جاتے ہیں کہ آپ روزآنہ اس میں پیسے جمع کریں اور رمضان میں شب قدر سے پہلے لاکر جمع کرادیں۔ کیا اسطرح چندہ کرکے امام مؤذن کو نذرانہ دینا درست ہے؟ جواب شریعت کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امام (اگرچہ وہی امام تراویح بھی ہو) اور مؤذن کو جو نذرانہ رمضان المبارک میں دیا جاتا ہے وہ جائز اور درست ہے، اس لئے کہ یہ تراویح کی اجرت کے طور پر نہیں ہے بلکہ وہ امام کو سال بھر امامت کرنے اور مؤذن کو ان کی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے اکراماً دیا جاتا ہے، جسے عرفِ عام میں "حقِ رضا" یا "عید بونس" بھی کہا جاسکتا ہے۔ خواہ یہ شبِ قدر کو دیا جائے یا اس کے پہلے یا بعد میں دیا جائے شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
نذرانہ کی رقم کے لیے باوقار طریقہ سے چندہ کیا جاسکتا ہے، یعنی شبِ قدر کے چندہ کے لیے اعلان کردیا جائے اور مصلیان بشاشت کے ساتھ بقدر استطاعت عطیہ دے دیا کردیا کریں۔ لیکن سوال نامہ میں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے جو اگرچہ شرعاً ناجائز نہیں ہے لیکن دو تین مہینے پہلے سے مصلیان میں ڈبہ تقسیم کردینا تاکہ وہ اس میں رمضان المبارک کے لیے نذرانہ کی رقم جمع کریں امامِ مسجد جیسے باوقار منصب کے منافی اور ہلکا پن معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ یہ طریقہ اختیار کرنے سے احتراز کیا جائے۔ بلکہ خود اس مسجد کے امام و مؤذن صاحبان کو چاہیے کہ وہ اس طرح نذرانہ جمع کروانے سے منع کریں تاکہ ان کا وقار باقی رہے۔
الأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لایجوز الاستیجار علیہا عندنا لقولہ علیہ السلام: اقرؤا القراٰن ولاتأکلوا بہ۔ (شامي : ۹؍۷۸)
ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ۔ (الدرالمختار مع الشامي : ۹؍۷۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 جمادی الآخر 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں