منگل، 7 جنوری، 2020

علماء کی شان میں گستاخی دارین میں خسارے کا سبب

*علماء کی شان میں گستاخی دارین میں خسارے کا سبب*

✍  محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام! سوشل نے میڈیا نے جہاں بہت سے معاملات سلجھائے ہیں اور آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں بہت سارے مسائل اور مشکلات بھی کھڑی کردی ہیں، ان مسائل و مشکلات میں سرفہرست ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا  بغیر سوچے سمجھے  اور بغیر علم کے موبائیل کی پیڈ پرانگلیاں دوڑانا شروع کردینا ہے۔ اور ان سے بڑے مجرم وہ ہیں جو ہر رطب ویابس تحریروں کی خطرناکی اور ان کا زہریلا پن سمجھے بغیر دھڑا دھڑ شئیر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسے افراد میں پڑھے لکھے، جاہل اور ہر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں، جو شرعی احکامات کو اس بُری طرح نظرانداز کرکے من مانی کررہے ہیں کہ ان کی حرکتوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اور آج کل تو سوشل میڈیا غیرمعتبر خبروں، ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے والے مضامین و تبصرے، شریعت کے بجائے اسباب کو اختیار کرنے پر زور دینے والی تحریروں اور علماء کرام پر طعن و تشنیع پر مشتمل ترسیلات سے بھرا ہوا ہے۔ جبکہ علماء کرام کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے اور بروز حشر ان کے درجات بہت اعلی و ارفع ہوں گے۔قرآن کریم و احادیث مبارکہ میں کثرت سے ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۔
ترجمہ : اللہ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا۔ (سورہ مجادلہ، آیت: 11)

دوسری جگہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ۔
ترجمہ : اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں. (سورہ فاطر، آیت 28)

ایک جگہ اللہ تعالٰی نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے۔
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ۔
ترجمہ : اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں۔ (سورۃ الزمر، آیت: 9)

متعدد احادیث میں علماء کرام کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے، اور ان کی شان میں گستاخی اور ان سے دشمنی و عداوت رکھنے کو ہلاکت کا باعث بتایا گیا ہے۔

بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ (بخاری)

ایک جگہ آپ علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور جو ہمارے عالِم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہے۔ (صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب : 101)

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو، پانچویں شخص نہ بننا ورنہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے۔ (شعب الإيمان للبیھقی، 1709)

حدیث شریف میں پانچویں قسم سے ہونے سے جو منع کیا گیا ہے تو وہ علماء دین سے بغض و عداوت رکھنے والے لوگوں کی قسم ہے۔

مذکورہ بالاآیات و احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ علماء کرام کی عزت و احترام ہم سب پر لازم اور ضروری ہے، اور ان کی شان میں گستاخی دنیا و آخرت میں خسارے کا سبب ہے۔ لیکن دن بدن اور گذرتے وقت کے ساتھ یہ مشاہدہ ہورہا ہے کہ عوام الناس کے دلوں میں علماء کرام کی قدر و منزلت میں کمی آرہی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ علماء کرام کے تئیں بعض حضرات بغض و عناد کا شکار ہیں، جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک وجہ امت کا مختلف فرقوں میں بٹ جانا ہے کہ جو عالم ہمارے موقف کے مطابق چل رہا ہو وہ تو ہمارے لیے باعزت اور مکرم ہے اور جو ہمارے موقف سے ہٹ جائے وہ تعظیم کے لائق نہیں۔ علماء کو لائقِ تعظيم نہ سمجھنے کی ایک وجہ علاقائی تعصب بھی ہوتا ہے، اسی طرح ایک اہم وجہ علماء کرام کا عملی سیاست میں حصہ لینا بھی ہے کہ اگر کوئی عالمِ دین عملی سیاست میں حصہ لے لے یا اس کے تعلقات سیاسی افراد سے ہوں، تو دیگر پارٹیوں کے افراد اب اس عالم کی عزت کو اپنے لئے حلال سمجھنے لگتے ہیں، اور اس عالم کی عزت کو سرِعام اچھالا جاتا ہے، اور اسے حق گوئی اور بے باکی سمجھا جاتا ہے۔

محترم قارئین! یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ علماء کرام کے مابین خالص علمی اختلاف شروع سے رہا ہے۔ امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کو دنیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے نام سے جانتی ہے جبکہ ان دونوں ائمہ نے اپنے استاذ سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر انہوں نے امام صاحب سے تیس مسائل سیکھے ہیں تو ان میں سے بیس مسائل میں ان کا آپس میں اختلاف ہے۔ کیا انہیں کوئی امام ابوحنیفہ کا مخالف کہتا ہے؟ بلکہ ہر کوئی انہیں امام صاحب کا شاگرد ہی سمجھتا ہے، جبکہ ہمارے یہاں علماء کے مابین کسی علمی مسئلے میں اختلاف ظاہر ہوتو عوام اسے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں، اور یہ آپس میں ایک دوسرے سے بغض وعداوت رکھتے ہیں، جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ لہٰذا موجودہ دور میں جب بھی علماء کرام کے درمیان کسی شرعی مسئلے میں اختلاف نظر آئے تو عوام کے لیے حکم یہ ہے کہ نفسانی خواہش اور شخصیت پرستی سے پَرے ہوکر دلائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ایک موقف پر عمل کرسکتے ہیں، لیکن عوام کا اس اختلاف پر تبصرہ کرنا اور دونوں میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو مطعون کرنا، ان پر طنز کرنا ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا ناجائز اور حرام کام ہے۔ لہٰذا جن لوگوں نے بھی علماء کرام کی یا کسی بھی عالم دین کی گستاخی پر مبنی تحریریں لکھی ہیں، جن لوگوں نے اسے پھیلایا ہے، نیز باوجود قدرت کے ایسی تحریروں پر کارروائی نہ کرنے والے گروپ ایڈمن بھی اس گناہ میں شامل ہوں گے۔ اور ان سب پر توبہ و استغفار لازم ہے اور جب تک یہ لوگ مذکورہ عالمِ دین سے عوامی سطح پر یا انفرادی طور پر معافی نہیں مانگ لیتے دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔

معزز قارئین ! فی الحال شہر میں علماء کرام کے درمیان ایک شرعی مسئلے میں اختلاف ظاہر ہوا۔ جس کے تناظر میں ایک عالمِ دین کے بارے میں ایسی قبیح، اخلاق سوز اور گستاخانہ کلمات پر مبنی تحریر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جسے پڑھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگے، اور وہ بھی ایک عام عالم دین نہیں، بلکہ ان کی خدمات کا دائرہ صرف مالیگاؤں شہر تک نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے، جو شیخ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ معتبر و مؤقر دینی اداروں کے صدر اور رکن کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ اور ہندوستان کے اکابر علماء کے معتمد ہیں۔ لہٰذا ہم ایسی تحریر لکھنے والے شقی اور بدبخت شخص اور اسے پھیلانے والوں کی سخت مذمت کرتے ہیں اور شہر کے تمام علماء کرام، عمائدین شہر اور شہر کی سنجیدہ عوام بالخصوص اکابر علماء کرام سے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس کے سدباب کے لیے کوئی مؤثر قدم اٹھائیں، اگر ایسی غلیظ حرکتوں پر فوری روک نہیں لگائی گئی تو آج وہ کل ہم سب کی باری ہے جس پر عبرت کے لیے درج ذیل شعر ہمیشہ یاد رکھیں۔

اے دوست برجنازہ دشمن چوں بگذری
شادی مکن کہ فردا ہمیں ماجرا رود

اللہ تعالٰی ہمیں وارثین انبیاء کی قدر دانی اور ان کی عزت و اکرام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اختلاف کو اختلاف کی حد تک رکھنے اور اسے سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

3 تبصرے:

  1. بہترین تحریر جناب۔۔۔۔ بے شک علماء کی عزت و قدردانی ہمارا قیمتی سرمایا ہیں ۔۔۔۔ لیکن جناب اگر ایک عام شخص کسی ایسے عالم دین کو جس کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہو ، اسے ایسے کام کرتا دیکھے جو شریعت مطہرہ کے بالکل برخلاف ہو ، مثلا سر عام وہ جھوٹ بولتا ہو ، سر راہ سالگرہ کا جشن مناتا ہو ، سر عام لوگوں کو برے القاب سے نوازتا ہو ، لوگوں پر الزام تراشیاں کرتا ہو۔۔۔۔۔ آیک ایسے عالم دین کے بارے میں ایک عام شخص کا کیا تاثر جائے گا اور ان کے لاکھوں ماننے والوں پر کیا تاثر جائے گا۔۔۔۔ جناب مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ کچھ ایسی تحاریر بھی لکھنے کی ضرورت ہے جو ان جیسے عالم دین کو ان کی ان کوتاہیوں کو اجاگر کریں کیونکہ ایسی تحاریر شاز ہی دیکھنے کو ملتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایرا غیرہ نتھو خیرا اٹھ کر اوٹ پٹانگ باتیں لکھ دیتا ہے جسے پڑھ کر کافی برا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. agr jesa k apke trf sy kaha gya an wohe such hai tw phr tw alim ke bhe pakar hogi..lkn farz kar lia jaye ye sari batein us alim par ilzam ho or alim ka kehna sucha ho tw phr kehny waly ko apni fikr krni chaiye..

      حذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم