سوال :
محترم مفتی صاحب! زید اپنے دوست عمر کے ساتھ بیٹھا ہوا اپنی بیوی کی کچھ غلط حرکتوں کو بیان کررہا تھا، اس نے یہ بھی کہا کہ میں اپنی بیوی سے عاجز آچکا ہوں، اور آخر میں یہ کہا کہ تو گواہ رہنا میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے رہا ہوں۔ کیا بیوی کی غیر موجودگی میں ایسا کہنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع ہوگی؟ اگر طلاق واقع ہوگی تو کون سی؟ اور بیوی کی عدت کب سے شمار ہوگی؟
(المستفتی : ضیاء الدین، بمبئی)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلاق واقع ہونے کے لئے بیوی کا اُس جگہ موجود ہونا ضروری نہیں، نیز طلاق کے الفاظ کو سُنے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جبکہ زید نے یہ کہا ہے کہ "میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے رہا ہوں" تو ان الفاظ کی وجہ سے اس کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت کی مدت میں زید کو رجوع کا اختیار ہوگا۔ اور جس وقت زید نے یہ الفاظ کہے ہیں اسی وقت سے عدت شروع ہوگئی، خواہ طلاق کا علم اس کی بیوی کو اسی وقت ہوا ہو یا بعد میں۔
قال اللّٰہ تعالیٰ : وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوْءٍ۔ (سورۃ البقرۃ، جزء آیت : ۲۲۷)
واِبتداء العدۃ فی الطلاق عقیب الطلاق وفی الوفاۃ عقیب الوفاۃ فان لم تعلم بالطلاق أو الوفاۃ حتی مضت مدۃ العدۃ فقد انقضت عدتہا۔ (ہدایہ : ۲/۴۰۵)
وإذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ رجعیۃ أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذلک أولم ترض۔ (ہدایہ : ٢/۳۹۴)
الطلاق، والعتاق یصح دون علم الآخر۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ۹/۲۹۱)
ولایلزم کون الإضافۃ صریحۃ في کلامہ، کما في البحر: لو قال طالق فقیل لہ من عنیت، فقال: امرأتي طلقت امرأتہ۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، ۴/۴۵۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 جمادی الاول 1441
رجوع کرنے کے لئے بیوی سے کہنا ضروری ہے یا بیوی کے غائبانہ میں ایک گواہ کی موجودگی میں رجوع کرنے کی ضرورت ہے یا پھر دل میں رجوع کا ارادہ کرنا بھی کافی ہوگا
جواب دیںحذف کریںارادہ کافی نہیں ہوگا، بلکہ زبان سے کہنا ضروری ہوگا، اس میں گواہوں کا ہونا بھی شرط نہیں، بغیر گواہ کے بھی کہہ دے تو رجوع ہوجائے گا، تاہم گواہ بنالینا بہتر ہے۔
حذف کریں