سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ روایات ملاحظہ فرمائیں :
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور ان میں اذا زلزلت الارض اور قل یا ایھا الکافرون پڑھتے تھے۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی) ابن ماجہ نے اس روایت میں خَفِیْفَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر مختصر پڑھا کرتے تھے۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے میں کھڑے ہوکر پڑھنے کی بہ نسبت نصف ثواب ملتا ہے۔ معلوم ہوا کہ نفل نماز کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے۔ نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں بھی پورا ثواب ملتا تھا، کیونکہ آپ کا یہ عمل امت کی تعلیم کے لیے تھا۔
البتہ اگر کوئی شخص کبھی کبھار وتر کے بعد دو رکعت نفل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے بیٹھ کر پڑھ لے تو اسے دو ثواب ملیں گے : نفل نماز کا نصف اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علیحدہ، اور ہوسکتا ہے کہ یہ مجموعہ کھڑے ہوکر نفل پڑھنے کے ثواب سے زیادہ ہوجائے۔ (تحفة الألمعي : ۲/۳۲۷، ۳۲۸)
عن أبي أمامة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلیہما بعد الوتر وہو جالس، یقرأ فیہما إذا زُلزلت، وقل یا أیہا الکافرون۔ (مسنداحمد)
عن أم سلمة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الوتر رکعتین رواہ الترمذي وزاد ابن ماجة خفیفتین وہو جالسٌ۔ (مشکوٰۃ ۱۱۳)
عن عمران بن حصين، قال: سألت النبي -صلى اللہ عليه وسلم- عن صلاة الرجل وهو قاعد، فقال: من صلى قائما فهو أفضل، ومن صلى قاعدا فلہ نصف أجر القائم، ومن صلى نائما فلہ نصف أجر القاعد۔ (صحیح البخاري: ۱؍۱۵۰، رقم: ۱۱۱۶،کتاب تقصیر الصلوٰۃ)
عن عائشة أم المؤمنين أنها قالت : صلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما، فأشار إليهم أن اجلسوا، فلما انصرف قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع، فاركعوا، وإذا رفع، فارفعوا، وإذا صلى جالسا، فصلوا جلوسا۔ (صحیح البخاري: ۱؍ ۹۵، رقم الحدیث : ۶۸۸،کتاب الأذان)
يستثنى منه صاحب الشرع صلى اللہ عليه وسلم كما ورد عنه صلى اللہ عليه وسلم، فإن أجر صلاته قاعدا كأجر صلاته قائما، فهو من خصوصياته۔(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص: ۴۰۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الاول 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں