جمعرات، 2 جنوری، 2020

قضیہ خواتینِ اسلام کی احتجاجی ریلی کا

*قضیہ خواتینِ اسلام کی احتجاجی ریلی کا*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطيب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہرِعزیز میں فی الحال سوشل میڈیا پر خواتین کی ریلی سے متعلق بحث و مباحثہ کا بازار گرم ہے۔ اس سلسلے میں دستورِ ہند بچاؤ کمیٹی اور دستور بچاؤ کمیٹی کے مابین کیا باتیں ہوئیں؟ کس نے کس کو کیا کہا؟ کس نے کس کی بات مانی؟ کس نے کس کی باتوں کا انکار کیا؟ ان تمام باتوں سے قطعِ نظر(کیونکہ ہم اس کے حقائق تک نہیں پہنچ سکتے، اور ہمارے لیے ان حقائق کا جاننا بھی ضروری نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں جس موضوع پر بات کرنا ہے اس کا ان حقائق سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے، لہٰذا اس سلسلے میں ہم سے کوئی گفتگو فضول ہی ہوگی) خواتین کی ریلی کی شرعی حیثیت اور اس کی مصلحتوں پر گفتگو کی جائے گی۔

محترم قارئین ! فروری 2018 میں طلاقِ ثلاثہ بِل کے خلاف تحفظِ شریعت کے عنوان سے خواتینِ اسلام کا جلوس خاموشی اور پردہ کی رعایت کے ساتھ نکالا گیا تھا۔ یہ جلوس آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (جس میں تمام مسلک کے مؤقر، جید اور بابصیرت علماء کرام کی نمائندگی ہوتی ہے) کی ایما پر اور شہرِ عزیز کے باصلاحیت اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے علماء و مفتیان کرام کی تائید و حمایت اور ان کی کوششوں سے اس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس ریلی کے جواز کی سب سے بنیادی وجہ یہی تھی کہ حکومت اور گودی میڈیا کی طرف سے چند ایمان فروش عورتوں کو سامنے لاکر یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ اسلام میں تین طلاق کا قانون ظالمانہ ہے، جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں انتہائی مناسب اور پُر حکمت احتجاج یہی ہوسکتا تھا کہ خواتینِ اسلام کو سڑکوں پر نکال کر حکومت کو یہ بتایا جاتا کہ خواتینِ اسلام شریعت میں کسی بھی قسم کی مداخلت کے سخت مخالف ہیں۔ اور چونکہ اُس وقت معاملہ براہِ راست خواتینِ اسلام اور حکومت کے مابین تھا، اس میں ہندو مسلم تنازعہ پیدا ہونے کا امکان نہ کے برابر تھا۔ جس کی وجہ سے اس احتجاجی ریلی کو مزید مؤثر بنانے کے لیے کلکٹر آفس تک لے جایا گیا تھا۔

لیکن اس کے برخلاف موجودہ مسئلے میں خواتین کی ریلی کی تائید و حمایت میں ملکی سطح کی کتنی مؤقر دینی تنظیمیں اور علماء کرام ہیں؟ اُس وقت کے حالات اور موجودہ حالات میں کیا فرق ہے؟ کیا اِس وقت ہندو مسلم تنازعہ پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں ہے؟ ان دونوں ریلیوں کے مابین فرق کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

معزز قارئین ! موجودہ ریلی کے انعقاد پر ہمارے بعض پڑھے لکھے اور بے پڑھے لکھے نوجوان یا پھر سرسری علم رکھنے والے علماء بھی یہ دلیل دے رہیں کہ یونیورسٹیوں کی طالبات نے جو احتجاج کیا، اور صوفی باصفا حضرت مولانا سجاد صاحب نعمانی دامت برکاتہم کا ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور دعا دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا اسے بھی ناجائز سمجھا جائے؟ ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت کے احکامات بعض وجوہات کی بناء پر بعض لوگوں کے لیے بلاشبہ گنجائش پیدا کرتے ہیں، مثلاً معذور کے لئے تیمم کا حکم وغیرہ۔ اسی طرح موجودہ حالات میں جبکہ یونیورسٹیوں کے طلباء کے احتجاج کو میڈیا اور خود حکومت بھی سنجیدگی سے لیتی ہے، اور ان کے احتجاج کو ہندو مسلم کے نظریہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ بلکہ اسے صرف اسٹوڈنٹس کا پروٹیسٹ کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جامعہ ملیہ کے سانحہ کے بعد پورے ملک میں جیسے آگ ہی لگ گئی ہے۔ کالے قانون اور طلباء پر ہوئے ظلم وتشدد کے خلاف ہر طبقہ بلاتفریق مذہب و ملت کھڑا ہوگیا ہے۔ بکاؤ میڈیا نے بھی کسی نہ کسی درجہ میں اسے بیان کیا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں جبکہ طلباء و طالبات کا احتجاج انتہائی مؤثر ثابت ہوسکتا ہے جس سے امید ہے کہ حکومت اپنے ناپاک ارادوں سے باز آجائے تو یونیورسٹیوں کی طالبات کا پردے کی رعایت کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرنا شرعاً جائز ہوسکتا ہے۔ (خواہ ریلی کی شکل میں ہو یا جلسہ کی شکل میں) اب ہر کوئی اس کا اندازہ کرسکتا ہے کہ یونیورسٹیوں کی طالبات اور گھریلو پردہ نشین خواتین کے سڑکوں پر نکلنے میں کیا فرق ہے؟ کیا پردہ نشین خواتین کا سڑکوں پر نکلنا یونیورسٹیوں کی طالبات کی طرح مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟ کیا پردہ نشین خواتین کی ریلیوں سے مکار اور چالباز حکومت کو ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا؟ خدانخواستہ حکومت اگر اسے ہندو مسلم رنگ دینے میں کامیاب ہوگئی تو یہ پوری تحریک ملیامیٹ ہوکر رہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم نے خالص مسلمانوں کے احتجاج کو خلافِ مصلحت کہا ہے۔ نیز پورے ملک میں ہورہے احتجاج پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ خواتین کی احتجاجی ریلیوں کی تعداد چار پانچ سے زیادہ نہیں ہے، اور وہ بھی علماء کرام اور ملکی سطح کی مؤقر دینی تنظیموں کی تائید و حمایت سے نہیں نکلی ہیں، بلکہ دیگر رفاہی اور سماجی تنظیموں کے زیرِ اہتمام نکالی گئی ہیں، جبکہ ان کے علاوہ خواتین کے بقیہ تمام احتجاج جلسہ اور دھرنے کی شکل میں ہورہے ہیں، ریلی کی شکل میں نہیں۔ (خواتین کے اسی احتجاج کو بعض لوگ ریلی پر قیاس کرتے ہوئے علماء کرام کے موقف پر اعتراض کررہے ہیں، جو سراسر لاعلمی یا پھر دھوکہ اور ظلم پر مبنی عمل ہے، جس کے لیے وہ عنداللہ ماخوذ ہوں گے) اور دستورِ ہند بچاؤ کمیٹی کے ذمہ داران اور شہر کے علماء کرام کا یہی کہنا ہے کہ ریلی کے بجائے احتجاجی جلسہ پر اکتفا کیا جائے۔

قارئین عظام ! یہ نکتہ بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ شہر کے علماء کرام مطلقًا خواتینِ اسلام کے احتجاج کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ بے فائدہ سڑکوں پر خواتین کو لے کر گھومنے کو غیرمناسب کہہ رہے ہیں، اگر احتجاج ہی درج کروانا ہے تو ایک جگہ جلسہ کرکے بھی یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے نا؟ تو پھر ریلی پر اصرار کیوں؟ اسی طرح اس بات کا علم ہونا بھی ضروری ہے کہ فقہاء امت کے یہاں ایک ضابطہ ہے کہ (اَلضَّرُوْرَاتُ تَتَقَدَّرُ بِقَدْرِہَا) ترجمہ:  ضرورتیں بقدرِ ضرورت ہی ثابت ہوتی ہیں۔ (قواعد الفقہ:ص۸۹، القاعدۃ:۱۷۱) اس کا مطلب  یہ ہے کہ جس شخص کو مردار کھانے کی اجازت دی گئی، وہ صرف اتنی مقدار کھا سکتا ہے، جس سے جان بچ جائے، نہ کہ اس سے زائد۔ لہٰذا اگر موجودہ حالات میں خواتین کے احتجاج کی شرعاً اجازت ہوسکتی ہے تو صرف اِسی حد تک جس میں احتجاج کا مقصد پورا ہوجائے۔ اور یہ مقصد جلسہ اور دھرنا کی صورت میں بھی پورا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ بلاضرورت پردہ نشین خواتین کو سڑکوں پر لے کر گھومنا غیرمناسب اور شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔ البتہ اگر خواتین پردہ کی رعایت کے ساتھ براہِ راست جلسہ گاہ میں پہنچ جائیں جہاں پردے کا معقول نظم ہو، وہاں اپنا احتجاج درج کرادیں تو شرعاً اس کی گنجائش ہوگی۔

نوٹ : بندے نے اپنی اس تحریر سے اپنا موقف بالکل صاف واضح اور مدلل ظاہر کردیا ہے۔ جس میں کسی پارٹی اور شخصیت کی حمایت یا مخالفت نہیں کی گئی ہے، صرف شرعی حکم بیان کیا گیا ہے، لہٰذا اس پر کسی کو کوئی اشکال ہوتو براہِ کرم دیگر فضولیات سے اجتناب کرتے ہوئے صرف دلائلِ اربعہ کی روشنی میں ہی پرسنل پر رابطہ کریں۔

اخیر میں اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو شرعی احکامات کی باریکیوں کو سمجھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کی برکت سے ہمارے تمام مسائل کو حل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم