*رکعتوں کی تعداد میں امام و مقتدی کے درمیان اختلاف ہوجائے*
سوال :
محترم مفتی صاحب! گزشتہ روز شہر کی ایک بڑی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کرنے کا موقع ملا، امام صاحب نے دوسری رکعت اور تیسری رکعتوں میں قعدۂ اولی کرلیا اور پانچ رکعتیں بغیر سجدہ سہو کے مکمل کرلی، کسی نے بھی لقمہ نہیں دیا مگر لوگ مضطرب نظر آئے۔ میں نے بھی آزو بازو والوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی پانچ رکعتوں کے ہونے کی بات کہی، ایک صاحب نے دھیرے سے پہلی صف والے ایک بڑے میاں سے پوچھا تو انہوں نے نہیں کہہ دیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ مجھے/ہمیں مکمل یقین ہے کہ پانچ رکعتیں ہوئی ہیں تو کیا ہم اپنی نمازیں دہرا لیں؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امام اور مقتدیوں کے درمیان تعدادِ رکعات میں اختلاف ہوجائے مثلاً مقتدی کہیں کہ پانچ رکعات پڑھائی گئی ہیں جبکہ امام کہتا ہو کہ میں نے چار رکعات ہی پڑھائی ہیں تو اس مسئلے کی متعدد صورتیں بن سکتی ہیں۔
ْ۱) اگر امام کو اپنی بات کا پورا یقین ہے تو اس صورت میں امام کا قول معتبر ہوگا۔
۲) اگر امام کو اپنی بات کا پورا یقین تو نہیں ہے مگر مقتدیوں میں سے کوئی ایک بھی اس کا حامی ہے تو اس صورت میں بھی امام کا قول معتبر ہوگا۔
۳) امام کو اپنی بات کا پورا یقین بھی نہیں ہے، اور تمام مقتدی بھی اس کی رائے کے مخالف ہیں تو اس صورت میں مقتدیوں کا قول معتبر ہوگا، اور نماز دوبارہ لوٹائی جائے گی۔
البتہ وہ مقتدی حضرات جنہیں امام کے قول سے اختلاف ہو اور انہیں اپنی بات کا یقین ہوتو انہیں اپنے یقین کے مطابق عمل کرنے کا اختیار ہوگا۔ مثلاً امام کے قول کا اعتبار کرتے ہوئے نماز کے اعادہ کا فیصلہ ہوا لیکن کچھ مصلیان کو یقین ہے کہ نماز مکمل ہوئی ہے تو انہیں اختیار ہوگا کہ وہ اعادہ والی نماز میں شریک نہ ہوں۔ اسی طرح اس کے برعکس معاملے میں ان مقتدی حضرات کو اپنی نماز کے اعادہ کا اختیار ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ حضرات کو مکمل یقین ہوکہ پانچ رکعتیں ہوئی ہیں تو آپ اپنی نماز دوہرا لیں۔
إذا شک الإمام فأخبرہ عدلان یأخذ بقولھما رجل صلی وحدہ أوصلی بقوم۔ فلما سلّم، أخبرہ رجل عدل، إنک صلیت الظھر ثلاث رکعات۔ قالوا إن کان عند المصلی أنہ صلی أربع رکعات لایلتفت إلی قول المخبر۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، ۱۳۱/۱)
ولواختلف الإمام والقوم فلو الإمام علی یقین لم یعد وإلا أعادبقولھم۔ (الدر المختار، ۹۴/۲)
(قولہ ولو اختلف الإمام والقوم)۔ أی کل القوم، أما لو إختلف القوم وقال بعضھم صلی ثلاثاً وقال بعضھم صلی أربعا۔ والإمام مع أحدالفریقین یؤخذ بقول الامام وإن کان معہ واحد۔ (الطحطاوی، ۳۱۷/۱)
وفي الشرح لو اختلف الإمام والمؤتمون فقالوا ثلاثًا وقال أربعًا إن کان علی یقین لا یأخذ بقولہم وإلا أخذ … ولو استیقن واحد بالتمام وآخر بالنقص وشک الإمام والقوم لا إعادۃ علی أحد إلا علی متیقن النقص لأن یقینہ لا یبطل بیقین غیرہ، ولوکان الإمام استیقن أنہ صلی ثلاثًا کان علیہ أن یعید بالقوم ولا إعادۃ علی متیقن التمام لما قلنا۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الصلاۃ، فصل في الشک، ص:۴۷۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ربیع الآخر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں