*مستقبل کے صیغہ سے طلاق کا حکم*
سوال :
محترم جناب مفتی صاحب! بعض مرتبہ عورت ناراض ہوکر اپنے میکے چلی جاتی ہے،(جس کو مالیگاؤں کی زبان میں غوصیا کر بیٹھنا بولتے ہیں) اور شوہر بھی طیش میں آکر یہ کہہ دیتا ہے کہ اب اسے طلاق دے دوں گا، کیا اس طرح سے طلاق واقع ہوگی؟ اور اگر ہوئی تو کونسی طلاق واقع ہوگی ؟
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اب اسے طلاق دے دوں گا یہ مستقبل کا صیغہ ہے۔ اور مستقبل کے صیغہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق ماضی یا حال کے صیغہ سے واقع ہوتی ہے، مثلاً کوئی کہے کہ میں نے طلاق دی یا میں طلاق دیتا ہوں۔
مستفاد : ہو رفع قید النکاح في الحال بالبائن أو الماٰل بالرجعي بلفظ مخصوص ہو ما اشتمل علی الطلاق۔ (الدر المختار علی ہامش الرد المحتار : ۴؍۴۲۴)
بخلاف قولہ: کنم لأنہ استقبال فلم یکن تحقیقاً بالتشکیک۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۳۸۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 جمادی الآخر1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں