*نماز کی صفوں میں خلا چھوڑ دینے کا حکم*
سوال :
آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی میں مقتدی ایک دوسرے سے اتنے دور دور کھڑے ہوتے ہیں کہ اگر پوری صف کو ایک دوسرے سےملایا جائے تو یقینا دو مقتدی کی جگہ بن جائے۔ اور اس بارے میں کسی کو بولو تو وہ سن کر ان سنا کر دیتا ہے، اب ایسے میں کسی کو بولنا کہ نہیں بولنا؟ اور قیام کی حالت سنت کے مطابق کیا ہے؟ کسی کو دیکھو تو بہت زیادہ پیر پھیلائے رہتا ہے، کسی کو دیکھو تو دونوں پیروں کے بیچ صرف چار انگلی جتنا ہی فاصلہ ہوتا ہے۔ اور کوئی اعتدال کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ان تینوں میں صحیح کیا ہے؟
(المستفتی : وکیل احمد، مالیگاؤں)
--------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے لیے صفوں کو سیدھا رکھنے، مِل مِل کر کھڑے ہونے اور صف میں کندھوں کو برابر رکھنے سے متعلق متعدد احادیثِ مبارکہ میں تاکید کی گئی ہے۔ صفوں کو سیدھا رکھنے اور فاصلہ نہ رکھنے پر فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اور اس کے ترک پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔ چند احادیث ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اس طرح کیوں صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے ہاں صفیں بناتے ہیں؟ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! فرشتے اپنے رب کے ہاں کیسے صفیں بناتے ہیں؟ فرمایا : وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے یوں مل کر کھڑے ہوتے ہیں کہ درمیان میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر : 430)
حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (کی صفوں) میں ہمارے کندھوں کو ہاتھوں سے برابر کرتے اور فرماتے : سیدھے ہو جاؤ، ٹیڑھے نہ ہو جاؤ، ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آج تم (صفوں کی درستی میں سستی کی بناء پر) سخت اختلاف کا شکار ہو۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر : 432)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں داخل ہوتے اور ایک جانب سے دوسری جانب تک جاتے۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سینوں اور کندھوں کو ہاتھوں سے درست کرتے اور فرماتے : ٹیڑھے نہ ہوا کرو، ورنہ تمہارے دل ٹیڑھ کا شکار ہو جائیں گے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر : 997)
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور کھڑی ہو سکے) نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میں تم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو بلکہ ہموار جگہ پر کھڑا ہو تاکہ سب کی گردنیں برابر رہیں) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتا ہوں۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر : 667)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : صفوں کو سیدھی کرو اپنے کندھوں کے درمیان ہمواری رکھو۔ صفوں کے خلا کو پر کرو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہو (یعنی اگر کوئی آدمی تمہیں ہاتھوں سے پکڑ کر صف میں برابر کرے تو اس کا کہنا مانو) اور صفوں میں شیطان کے لئے خلا نہ چھوڑو اور (فرمایا) جس آدمی نے صف کو ملایا (یعنی صف میں خالی جگہ پر جا کھڑا ہو گیا) تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنے فضل اور اپنی رحمت سے) ملا دے گا اور (یاد رکھو) جو شخص صف کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ ڈالے گا (یعنی مقام قرب سے دور پھینک دے گا۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر : 666)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : امام کو درمیان میں رکھو (یعنی صف بندی اس طرح کرو کہ امام کی دائیں اور بائیں جانب کے آدمی برابر ہوں) اور (صف کے) خلا کو بند کرو۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر :681)
حضرت براء ابن عازب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو لوگ پہلی صفوں کے قریب ہوتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدم سے زیادہ محبوب کوئی قدم نہیں ہے جو چل کر صف میں ملے (یعنی اگر صف میں جگہ خالی رہ گئی ہو تو وہاں جا کر کھڑا ہو جائے)۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر : 543)
درج بالا روایات، نیز عباراتِ فقہاء سے معلوم ہوتا ہے کہ صفوں کو سیدھا رکھنا اور حتی الامکان فاصلہ نہ رکھنا سنتِ مؤکدہ ہے۔ چنانچہ مقتدی حضرات کا قصداً اس سے غفلت برتنا اور صفوں میں خلا چھوڑنا معصیت اور گناہ کی بات ہے۔ اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف و انتشار کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ لہٰذا مقتدی حضرات کو اس کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔ (1)
نماز کے اندر قیام کی حالت میں دونوں پیروں کے درمیان چار انگلیوں کا فاصلہ رکھنے کی جو بات ہے، اس سلسلے میں باقاعدہ صراحتاً کوئی حدیث شریف موجود نہیں ہے۔ البتہ نماز کے اندر خشوع و خضوع اور طمانینت کا حکم ہے اور یہ خشوع وخضوع اور یکسوئی اس وقت حاصل ہوگی جب کہ آدمی اپنی ہیئت پر کھڑا ہو اور درمیانی بدن کا آدمی جب اپنی ہیئت پر کھڑا ہوتا ہے تو دونوں پیروں کے درمیان تقریباً چار انگلیوں کا فاصلہ ہوتا ہے، اس لئے فقہاء ومحدثین نے چار انگل کے فاصلہ کو افضل بتایا ہے، اور اگر موٹا آدمی ہے تو وہ چار انگل سے زیادہ فاصلہ پر کھڑا ہوگا تو اس لئے کہ وہی افضل ہے، لیکن اگر کوئی اس طرح ٹانگیں چیر کر کھڑا ہو کہ صف میں بازو میں کھڑے ہوئے مصلی کے کندھے سے کندھا نہ مل سکے تو ایسا کرنا خلافِ سنت ہوگا۔ (2)
1) قلت والظاہر من کلام أصحابنا أنہا سنۃ مؤکدۃ لإطلاقہم الکراہۃ علی ضدہا۔ (اعلاء السنن، کتاب الصلاۃ، باب سنیۃ تسویۃ الصف ورصہا بیروت ۴/۳۳۲، کراچی ۴/۳۱۵)
والجمہور أنہا سنۃ ولیس الإنکار للزوم الشرع بل للتغلیظ والتحریض علی الإتمام۔ (قسطلاني، کتاب الصلاۃ، باب إثم من لم یتم الصفوف، دارالفکر بیروت۲/۴۱۵، رقم:۷۲۴)
الأمر بتسویۃ الصفوف وہی سنۃ الصلوۃ عند أبي حنیفۃ،ؒ والشافعيؒ، ومالکؒ۔ (عمدۃ القاري زکریا۴/۳۵۴، بیروت۵/۲۵۴)
إن تعدیل الصفوف من سنۃ الصلوۃ ولیس بشرط في صحتہا عند الأئمۃ الثلاثۃ الخ۔ (اوجز المسالک، العمل في غسل الجمعۃ، تسویۃ الصفوف قدیم۱/۳۴۱جدید دمشق ۳/۲۹۵)
2) ینبغي أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روی عن أبي نصر الدبوسي أنہ کان یفعلہ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثانی، قبیل، فصل في القراء ۃ ۲/۵۵، رقم:۱۷۲۰، مثلہ في الشامیہ، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مبحث القیام، کراچی، ۲/۱۳۱)
ویسن تفریج القدمین في القیام قدر أربع أصابع؛ لأنہ أقرب إلي الخشوع (وتحتہ فيالطحطاوي) نص علیہ في کتاب الأثر عن الإمام ولم یحک فیہ خلافًا۔ (طحطاوي علی المراقي، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا جدید ۲۶۲، قدیم ۱۴۳/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الآخر 1441
آپ کا بہت شکر گزار ہوں ۔ مذکورہ جزءیات کی اشد حاجت رہی۔
جواب دیںحذف کریں