*کپڑوں کی نمائش کے لیے انسانی اسٹیچو لگانا*
سوال :
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔
مفتی صاحب مسئلہ یہ معلوم کرنا تھا کہ آج کل ریڈی میڈ کی اور برقعے کی دوکانوں میں مختلف قسم کے مجسمے (آدمی عورت اور بچوں) کے مجسمے رکھے جاتے ہیں ان کا رکھنا کیسا ہے جائز یا نا جائز؟ شریعت کی روشنی میں مفصل جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد ناصر، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ریڈی میڈ کپڑے اور برقعہ کی دوکانوں پر اگر ایسے انسانی مجسمے اور اسٹیچو ہوں جو ہُو بہُو انسانی شکل میں ہوں تو ان پر کپڑے پہنا کر نمائش کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ممنوع مجسمے کے حکم میں ہے جس پر احادیث مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ البتہ اگر اس کے سر کا حصہ نہ ہو، یا چہرے کو بالکل سپاٹ اور مسطح رکھا جائے، اس میں آنکھ، ناک نمایاں نہ ہوں، نیز خواتین کے اعضاء مثلاً سینہ وغیرہ کا ابھار ظاہر نہ ہورہا ہو تو پھر ایسے ناقص صورت اسٹیچو لگانے کی گنجائش ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا اشْتَرَتْ نُمْرُقَةً فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَابِ، فَلَمْ يَدْخُلْ، فَقُلْتُ : أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مِمَّا أَذْنَبْتُ. قَالَ : " مَا هَذِهِ النُّمْرُقَةُ ؟" قُلْتُ : لِتَجْلِسَ عَلَيْهَا وَتَوَسَّدَهَا. قَالَ : " إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ لَهُمْ : أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ. وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ الصُّورَةُ۔ (بخاری، حديث نمبر ٥٩٥٧)
قال النووي : قال أصحابنا وغیرہم من العلماء: تصویر صورۃ الحیوان حرامٌ شدید التحریم، وہو من الکبائر … فصنعتہ حرام بکل حال۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۲؍۱۹۹، ونحو ذٰلک في الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۹)
ظاہر کلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان۔ (شامي، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ ۲؍۴۱۶)
الصورة الرأس، فكل شيء ليس له رأس فليس بصورة۔ (معاني الآثار ٣٦٦/٢)
ونقل الرافعي عن الجمهور أن الصورة إذا قطع رأسها ارتفع المانع۔ (فتح القدير ٣٢٦/١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 ربیع الآخر 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں