*موبائل میں قرآن پڑھنے اور موبائل جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب! موبائل اسکرین پر قرآن مجید کی تلاوت کا کیا حکم ہے؟ آج ایک مسجد میں موبائل پر تلاوت کر رہا تھا، کچھ حضرات کو اعتراض ہوگیا۔ ایک صاحب نے تو یہ کہا کہ ان کے حضرت جی نے کہا ہے کہ جن کی جیب میں اسکرین ٹچ والا موبائل رہتا ہے ان کی تو نماز بھی تقوے والی نہیں ہوتی، ان لوگوں کو مسئلے سے آگاہ کرنے کی غرض سے سوال کیا ہوں۔
(المستفتی : فہیم ابراہیم، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موبائیل کی مثال بندوق اور چُھری جیسی ہی ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں، جیسے کوئی بندوق کا جائز استعمال کرتے ہوئے اس سے کسی حلال جانور کا شکار کرے اور اسے کھا کر اپنی بھوک مٹائے، یا پھر اس کا بہترین استعمال کرتے ہوئے جہاد میں کسی دشمنِ دین کو واصل جہنم کردے اور اجر و ثواب کا مستحق ہو یا پھر اس کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی کا ناحق قتل کردے۔ اسی طرح موبائل کا استعمال اگر کوئی اپنی جائز تجارت میں کرے تو یہ اس کے لئے شرعاً درست ہے، اگر کوئی اس کا استعمال باطل کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کرے اور اسلام کی صحیح شکل و صورت لوگوں کے سامنے پیش کرے تو ایسا شخص عنداللہ اجرِ عظیم کا مستحق ہوگا، اور اگر کوئی اس کا استعمال لوگوں کو دھوکہ دینے، فحاشی اور عریانیت کے مناظر دیکھنے کے لیے کرے تو بلاشبہ وہ گناہ گار ہوگا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ موبائل میں اپنی ذات کے اعتبار سے شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ اس کا پورا دارومدار استعمال کرنے والے پر ہے۔ لہٰذا موبائل کا مثبت استعمال ہو بلکہ اس کا اسلامائزیشن کرلیا جائے اور اس میں اسلامی مواد قرآن، احادیث، دینی کتب، نعت، حمد، بیانات وغیرہ ڈاؤنلوڈ کرلیے جائیں اور اس سے استفادہ کرکے باطل کی سازشوں کو ملیامیٹ کردیا جائے۔
موبائل میں دیکھ کر قرآن مجید پڑھنا درست ہے، بلکہ اس میں دیکھ کر تلاوت سے بھی ان شاءاللہ وہی ثواب ملے گا جو مطبوعہ قرآن مجید میں دیکھ کر پڑھنے سے ملتا ہے، اس لئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں جو قرآن ہوا کرتے تھے وہ پتھروں، پتوں، درختوں کی چھالوں اور کپڑوں پر لکھے جاتے تھے، جبکہ ہمارے زمانے میں جو قرآن مجید کے نسخے ہیں وہ کاغذ پر لکھے ہوئے ہیں، چنانچہ اس نظریے سے دیکھا جائے تو موجودہ قرآن مجید میں دیکھ کر پڑھنے سے بھی ثواب کم ہوجائے گا، لیکن اِس قرآن میں تلاوت پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ معلوم ہوا کہ اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ ضرورت کے پیشِ نظر قرآن کریم کے نسخوں کی شکل میں تبدیلی ہوسکتی ہے، اور ہوئی ہے۔
موبائل میں قرآن شریف پڑھنے پر اعتراض علمائے عرب وعجم اور جمہور علماء امت کے موقف کے خلاف ہے، خصوصاً دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، ندوة العلماء لکھنؤ، جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد، وغیرہ کے فتاوی اور ان کی تحقیقات و تصریحات کے قطعاً خلاف ہے۔ زیر بحث مسئلے پر ہم ذیل میں چند اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں۔
ازہرِ ہند، دارالعلوم دیوبند
موبائل کی میموری میں قرآن کریم رکھنا ناجائز نہیں ہے، لیکن اس کا خیال ضروری ہے کہ قرآن کی بے حرمتی نہ ہو، مثلاً جس وقت موبائل کی اسکرین پر قرآن کی آیات نظر آرہی ہوں اس وقت اسکرین کو بلاوضو ہاتھ نہ لگائیں، ہاتھ لگائے بغیر بلاوضو پڑھ سکتے ہیں، ایسے موبائل کو بند کرکے باتھ روم میں بھی لے جاسکتے ہیں، اور میموری میں ناجائز چیزیں مثلاً تصاویر اور فلمیں وغیرہ رکھنے سے بھی احتراز لازم ہے۔ (جواب نمبر : 36400)
جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن
موبائل میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے، البتہ موبائل کی اسکرین پر اگر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو اسکرین کو وضو کے بغیر نہ چھوا جائے، اس کے علاوہ موبائل کے دیگر حصوں کو مختلف اطراف سے وضو کے بغیر چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (فتوی نمبر : 143908200419)
جامعہ قاسمیہ شاہی، مرادآباد
موبائل میں عریاں تصاویر دیکھنا اور گانا سننا بہرحال ناجائز اور حرام ہے، لیکن موبائل میں قرآن ٹیپ کرنا یا قرآن کے الفاظ اُس میں محفوظ کرنا، تاکہ بوقتِ ضرورت اُسے پڑھا یا سُنا جاسکے، اُس میں شرعاً کوئی مانع نہیں ہے۔ (کتاب النوازل، 15/66، مکتبہ جبریل)
سوال نامہ میں جن حضرت جی کا ذکر کیا گیا ہے غالباً انہوں نے بھی اس قول سے رجوع کرلیا ہے، لیکن لاعلم معتقدین اب تک یہی باتیں دوہرا رہتے ہیں۔ نیز خود نظام الدین بنگلہ والی مسجد میں باقاعدہ جدید آلات سے آڈیو بیانات ریکارڈ ہوتے ہیں، اور انہیں یوٹیوب پر "دہلی مرکز" نامی چینل پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، جبکہ ایک عام انٹرنیٹ صارف بھی یہ جانتا ہے کہ یوٹیوب کیا بلا ہے؟ اس میں اچھے بُرے ہر طرح کے مواد موجود ہیں۔ لہٰذا جب یوٹیوب پر بیانات جس میں بلاشبہ قرآنی آیات بھی پڑھی جاتی ہیں اپلوڈ کیے جاسکتے ہیں اور اسے سُنا بھی جاسکتا ہے تو پھر موبائل میں دیکھ کر قرآن مجید پڑھنے میں کیسی قباحت ہے؟ یہ عجیب وغریب منطق تو ہماری سمجھ سے پَرے ہے۔
فی نفسہ اسکرین ٹچ اور ملٹی میڈیا موبائل میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ کیمرہ کا ناجائز استعمال یعنی ممنوعہ چیزوں کی تصویر کشی کرنا ناجائز ہے۔ لہٰذا سوال نامہ میں آپ نے جو بات ذکر کی ہے کہ جن کے جیب میں اسکرین ٹچ موبائل ہوتا ہے ان کی نماز تقوے والی نہیں ہوتی اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کیونکہ فقہاء نے صراحتاً لکھا ہے کہ ایسی تصویر جو نمازی کے پیچھے کی طرف یا اس کے پاؤں کے نیچے ہو، یا جیب اور غلاف کے اندر ہوتو ایسی صورت میں بھی نماز بلاکراہت درست ہوجاتی ہے۔ جبکہ موبائل کی اسکرین بند ہونے کی صورت میں تصویر کا کہیں نام ونشان ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسکرین ٹچ اور ملٹی میڈیا موبائل جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے والوں پر اعتراض فقہاء کرام کی تصریحات کے خلاف اور غلو فی الدین ہے جو شرعاً مذموم عمل ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ. فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنِ اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبُ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلم يزل عمر يراجعني فِيهِ حَتَّى شرح الله صَدْرِي لذَلِك وَرَأَيْت الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جمع الْقُرْآن قَالَ: قلت كَيفَ تَفْعَلُونَ شَيْئا لم يَفْعَله النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خير فَلم أزل أراجعه حَتَّى شرح الله صَدْرِي للَّذي شرح الله لَهُ صدر أبي بكر وَعمر. فَقُمْت فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَال حَتَّى وجدت من سُورَة التَّوْبَة آيَتَيْنِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ (لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ) حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ. فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاته ثمَّ عِنْد حَفْصَة۔ بخاری شریف، حدیث نمبر 2220)
کانت الصورۃ خلفہ أو تحت رجلیہ ففي شرح عتاب لا تکرہ الصلاۃ۔(فتح القدیر : ۱/۴۱۵)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: (قولہ لا لمستتر بکیس او صرۃ) بان صلی ومعہ صرۃ او کیس فیہ دنانیر او دراہم فیہا صور صغار فلا تکرہ لاستتارہا بحر ومقتضآہ انہا لو کانت مکشوفۃ تکرہ الصلاۃ مع ان الصغیرہ لا تکرہ الصلاۃ معہا کما یأتی لکن یکرہ کراہۃ تنزیہ جعل الصورۃ فی البیت نہر۔ (ردالمحتار ہامش الدرالمختار :۴۷۹/۱، قبیل مطلب الکلام علی اتخاذ المسبحۃ، باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الآخر 1441
بہت مفید معلومات دی جارہی ہے اللہ تعالی قبول فرمائے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ محترم... اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین ثم آمین
جواب دیںحذف کریں