*حکومت کی دی ہوئی زمین پر مسجد بنانا*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا عدلیہ کے فیصلے کے تحت سرکار کے ذریعے دی گئی زمین پر مسجد بنائی جاسکتی ہے؟
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجدِ شرعی کے تحقق کیلئے ضروری ہے کہ مسجد کی جگہ ہمیشہ کیلئے مسجد کے نام پر وقف ہو اور قیامت تک اس کا کوئی مالک نہ ہو۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر حکومت سے باقاعدہ مسجد کے نام زمین الاٹ کراکے اور ملکیت و قبضہ کے تمام لوازمات کے ساتھ اس زمین پر مسجد بنائی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ خواہ حکومت یہ زمین عدلیہ کے فیصلے کے تحت دے یا خود سے دے۔ ہر دو صورت میں ایسی زمین پر مسجد بنانا اور اس میں نماز پڑھنا درست ہے، بشرطیکہ مذکورہ بالا شرائط کے مطابق معاملات طے ہوں۔ نیز اس سلسلے میں اسلامی اور غیراسلامی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
وذکر فی الواقعات : رجل بنی مسجدًا علی سور المدینة لا ینبغي أن یصلي فیہ لأنہ حق العامة فلم یخلص للہ تعالی کالمبني في أرض مغصوبة ۔۔۔۔ ولو فعلہ بإذن الإمام ینبغي أن یجوز فیما لا ضرر فیہ یعني: في مسجد السور لأنہ نائبہم۔ (غنیة المستملي، ۶۱۵/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)
سلطان أذن لقوم أن یجعلوا أرضًا من أرض البلد حوانیت موقوفۃ علی المسجد، وأمرہم أن یزیدوا في مساجدہم، ینظر: إن کانت البلدۃ فتحت عنوۃً یجوز أمرہ إذا کان لا یضرّ بالمارۃ؛ لأن البلدۃ إذا فتحت عنوۃً، صارت ملکًا للغزاۃ، فجاز أمر السلطان فیہا۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الوقف، ۲؍۴۵۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الاول 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں