*انصاری برادری کی حقیقت*
سوال :
محترم جناب مفتی صاحب! عام طور پر ہمارے شہر میں جو یوپی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں وہ اپنے نام کے ساتھ "انصاری" نسبت لگاتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے واضح فرمادیں۔(کیونکہ بعض مرتبہ کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ انصارِ مدینہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انصاری لگاتے ہیں)
نیز نسبت کے بارے میں اگر کوئی شخص جھوٹ بولے تو اس کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مؤرخین نے ہندوستان کے مسلمانوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ یا پھر تجارت اور تبلیغ دین کی غرض سے آیا اور ہندوستان میں ہی رہائش پذیر ہوگیا جن میں مغل، پٹھان، سیّد اور شیخ ہیں۔ دوسرے طبقے کے مسلمان وہ ہیں جو ہندوؤں کی بڑی ذاتوں سے مسلمان ہوئے تھے مثلاً راجپوت، کسان، اور دوکاندار وغیرہ، یہ کشتری کہلاتے تھے۔ اور تیسرے طبقے میں مسلمان وہ ہیں جو ہندوؤں کی چھوٹی برادری سے مسلمان ہوئے۔ برصغیر میں اس طبقے کے مسلمان زیادہ ہیں، یعنی ہنرمند اور پیشہ ور افراد، مثلاً حجام، قصائی، تیلی، جولاہے، کمہار، لوہار اور دھوبی وغیرہ۔
مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ لکھتے ہیں :
ہندوستان جیسے ممالک میں جو غیرمسلم قومیں دولتِ اِسلام سے مشرف ہوئیں، اُنہوں نے اپنی شناخت کے لئے اپنے پیشوں کو تعارف کی بنیاد بنایا، اور ایک پیشہ کرنے والی قوم آپس میں تعاون وتناصر کی وجہ سے ایک قرار دی گئی، اِس طرح کی تقسیم زمانۂ نبوت میں نہیں تھی، نیز عرب کے اندر آج بھی پیشوں کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے، اور کسی بھی پیشہ والوں کو ایسے نام سے یاد کرنا جس سے اُنہیں ذہنی تکلیف ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔ لہٰذا آج کل کپڑا بُننے والوں کو جولاہا کہہ کر طعنہ دینا درست نہ ہوگا، اَب اِن لوگوں نے اپنا عرف انصاری بنالیا ہے، اِس لئے اِسی عُرفی نسبت کے ساتھ اُنہیں پکارا جائے گا، یہی حال دیگر برادریوں کا ہے۔ (کفایت المفتی ۱؍۲۶۰)
مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ ہمارے شہر میں بسنے والی انصاری برادری اصلاً غیرمسلموں کی اولاد ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ یہ انصارِ مدینہ کی اولاد اور نسل سے ہیں، بظاہر درست نہیں، اور اس کا ثبوت تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن چونکہ اس برادری کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ وہ سب کے سب انصار مدینہ کی نسل سے ہیں۔ بلکہ یہ لفظ انصاری محض لقب اور پہچان کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ نہ کہ اظہار نسب و نسل کے لئے تو پھر اس کے اختیار کرنے کا بھی کوئی شرعی الزام ان پر عائد نہ ہوگا۔ البتہ اس برادری میں سے اگر کوئی خاندان ایسے ہوں جو اپنے سلسلۂ نسب کو محفوظ رکھتے ہوں اور ان کے جداعلیٰ کوئی انصاری ہو، وہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ بُنکروں کے بعض خاندان بلحاظ نسب انصار مدینہ کی نسل سے ہوں۔
نسبت کے بارے میں اگر کوئی شخص جھوٹ بولے یعنی غیر برادری اور خاندان کی طرف اپنے کو منسوب کرے تو اس کا یہ عمل شرعاً ناجائز اور سخت معصیت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جان بوجھ کر اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرنے والے پر جنت حرام ہے۔
عن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من ادعیٰ إلی غیر أبیہ وہو یعلم أنہ غیر أبیہ فالجنۃ علیہ حرام۔ (صحیح البخاري، کتاب الفرائض / باب من ادعی إلی غیر أبیہ ۲؍۱۰۰۱ رقم: ۶۷۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تولی إلی غیر موالیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (رواہ ابن حبان في صحیحہ رقم: ۴۳۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الاول 1441
انصاری ❤️
جواب دیںحذف کریں