*مورتی اور پھول وغیرہ کی تجارت کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید شیرڈی میں پھول اور شیرینی اور سائیں کی مورتی فروخت کرتا ہے تو اس کی کمائی حلال ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
( المستفتی : حافظ شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسا سامان جو پوجا پاٹ کے علاوہ دوسرے کام میں بھی استعمال ہوتا ہو مثلاً ناریل، کافور، مٹھائیاں تو اُس کی تجارت جائز ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کا پھول اور شیرینی فروخت کرنا درست ہے، اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔ کیونکہ پھول اور شیرینی کی تجارت میں انہیں بیچ کر اپنا کاروباری نفع حاصل کرنا ہے، اب خریدار کہاں استعمال کریں گے، اس سے زید کو کوئی مطلب نہیں۔ خریدار معصیت کی جگہ استعمال کرے گا، تو اس کا گناہ اسی کے سر ہوگا۔ زید پر اس کا کوئی وبال نہ ہوگا۔
مورتیاں دو طرح کی ہوتی ہیں، دونوں کی تجارت اور آمدنی کا حکم ذیل میں مفصل بیان کیا جاتا ہے، اس کا بغور مطالعہ فرمالیں آپ کا مطلوبہ سوال سمجھ میں آجائے گا۔
۱) اگر وہ مورتیاں مٹی یا پتھر سے بنی ہوئی ہوں، تو ان کو بنانا اور ان کی تجارت کرنا حرام ہے اور ان کی آمدنی بھی حرام ہے۔ اس لئے کہ مٹی یا پتھر کے ٹوٹ جانے کے بعد پھر وہ کسی کام میں نہیں آتی، اس کی مالیت تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔
۲) دوسری شکل یہ ہے کہ اگر وہ مورتیاں لوہا، پیتل، تانبا، وغیرہ کسی دھات سے بنائی جاتی ہیں، تو ان کا بنانا حرام اور عظیم ترین گناہ ہے جس پر حدیث شریف میں قیامت کے دن کی سخت ترین عذاب کی وعید وارد ہوئی ہے، لیکن ان مورتیوں کو توڑ دینے یا ان کو گلا دینے کے بعد بھی تانبا، پیتل وغیرہ کی پوری مالیت باقی رہتی ہے، اسی لئے ان کی تجارت میں مالیت کی تجارت ہوگی اور ان کی آمدنی پر حرام کا حکم نہ ہوگا۔ البتہ ایسی مورتیوں کی تجارت کرنا جن کی دوسری قومیں پرستش کرتی ہوں جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ شرک میں براہ راست کھلا ہوا تعاون ہے، جو مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
رجل آجر بیتًا لیتخذ فیہ نارًا، أو بیعۃ، أوکنیسۃ، أو یباع فیہ الخمر، فلا بأس بہ، وکذا کل موضع تعلقت المعصیۃ بفعل فاعل مختار۔ (خلاصۃ الفتاوی، کتاب الکراہیۃ، الفصل التاسع في المتفرقات، المکتبۃ الأشرفیۃ،۴/۳۷)
عن عبداﷲ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن أشد الناس عذابا یوم القیامۃ المصورون۔ (مسلم شریف، باب لا تدخل الملائکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۲۰۱، بیت الأفکار، رقم: ۲۱۰۹)
اشتری ثوبا أو فرسا من خزف لأجل استیناس الصبي لا یصح ولا قیمۃ لہ۔ (تحتہ في الشامیۃ:) لو کانت من خشب أو صفر جاز إتفاقا فیما یظہر لإمکان الانتفاع بہا۔ (شامي، کتاب البیوع، باب المتفرقات، زکریا ۷/ ۴۷۸، کراچی ۵/ ۲۲۶)
وکذا بطل بیع مال غیر متقوم کالخمر والخنزیر، ویدخل فیہ فرس أو ثور من خزف لاستیناس الصبي۔ (الدرالمنتقی، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۷۸/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 صفر المظفر 1441
Gutaka ki Tijarat Karsakte Kya Nahi
جواب دیںحذف کریںاس کے مضر صحت ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے.
جواب دیںحذف کریں