سوال :
مفتی صاحب ایصال ثواب کے لئے ایک نفل نماز بتائی ہے ثنا کے بعد سورہ فاتحہ پھر آیت الکرسی اس کے بعد سورہ التکاثر پھر گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص دو رکعت ادا کرنا ہے بعد نماز درودشریف ستر مرتبہ پڑھ کر بخشنا ہے۔تحقیق مطلوب ہے یہ درست ہے کیا؟ اور سب سے بہتر ایصال ثواب کا طریقہ بتائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے۔ لہٰذا اس نماز کے ذریعہ ایصالِ ثواب سے احتراز کیا جائے۔ اسی طرح ایصالِ ثواب کے لئے اور کوئی مخصوص نماز آپ علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔ بلکہ عام نفل نمازوں کی طرح ایصالِ ثواب کے لئے بھی نماز پڑھی جائے گی۔
مرحومین کے ایصالِ ثواب کے متعدد ذرائع ہیں، مالی عبادت کے ذریعے : مثلاً صدقات و خیرات کرنا یا مسکین و حاجت مند کو کھلانا، پلانا، یا کپڑے پہنانا یا ان کی کوئی اور ضرورت پوری کرنا۔
بدنی عبادت کے ذریعے : جیسے نفل نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن، ذکر، اعتکاف، طواف یا نفل حج یا عمرہ وغیرہ۔ یا ایسے عمل کے ذریعہ جس سے مخلوق کو نفع پہنچے اور اللہ کا قرب حاصل ہو، جیسے کنواں یا بورنگ کردینا، پل یا مسافرخانہ بنوانا، پھلدار یا سایہ دار درخت لگانا، مسجد کی تعمیر کرنا، یا مصحف شریف یعنی قرآن مجید کو تلاوت کے لیے وقف کردینا وغیرہ
ذکر کردہ اعمال کے کرنے سے پہلے یا بعد میں یہ نیت کرلینا کہ اللہ تعالٰی اس عمل سے ملنے والا اجر فلاں اور فلاں کو عطا فرما، ایصال ثواب کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین اور مومنات کی نیت کرے، اس لیے کہ سب کو بھیجے ہوئے نیک عمل کا پورا پورا ثواب پہنچتا ہے، بھیجنے والے کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جاتا، یہی اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے۔
صدقہ کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان کا نفع دیرپا ہوتا ہے، اسے صدقۂ جاریہ کہا جاتا ہے، یہ ایصالِ ثواب کا سب سے بہتر طریقہ ہے، جیسے : مسجد یا مدرسہ تعمیر کرا دینا ، کنواں کھدوا دینا، وغیرہ۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ ان کی طرف سے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کنواں کھودوانے کا مشورہ دیا۔
لہٰذا ایسے صدقات کے ذریعہ ایصالِ ثواب جس کے نفع کا دائرہ وسیع ہو، اور زیادہ دنوں تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں، سب سے افضل طریقہ ہوگا۔
فہذہ الآثار وما قبلہا وما فی السنة أیضاً من نحوہا عن کثیر قد ترکناہ لحال الطول یبلغ القدر المشترک بین الکل وہو من جعل شیئًا من الصالحات لغیرہ نفعہ اللّٰہ بہ مبلغ التواتر۔ (فتح القدیر، ۱۴۲:۳)
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ سَمِعْتُ شُعْبَةَ يُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّ أُمَّهُ مَاتَتْ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ سَقْيُ الْمَاءِ قَالَ فَتِلْكَ سِقَايَةُ آلِ سَعْدٍ بِالْمَدِينَةِ قَالَ شُعْبَةُ فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ مَنْ يَقُولُ تِلْكَ سِقَايَةُ آلِ سَعْدٍ قَالَ الْحَسَنُ۔ (مسند احمد)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 صفر المظفر 1441
جزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریںیہ فتح القدیر کس کی لکھی ہوئی ہے
جواب دیںحذف کریں