سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے ہندہ باوضو تھی، اس نے اپنے چھوٹے بچے کو پاخانہ کرانے کے بعد اس کی صفائی کی جس کی وجہ سے اسے نجاست لگ گئی، تو کیا ہندہ کا وضو باقی رہا یا نہیں؟
(المستفتی : محمد زبیر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بدن پر نجاست کے لگ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ وضو کے ٹوٹنے کیلئے نواقضِ وضو میں سے کسی ناقض کا پایا جانا ضروری ہے۔ نواقض وضو درج ذیل ہیں :
١) آگے پیچھے کی شرم گاہ سے کسی چیز کا عادت کے طور پر نکلنا۔ مثلاً پاخانہ، پیشاب، ریاح، منی، مذی وغیرہ۔
۲) اگلی پچھلی شرم گاہ سے خلافِ عادت کسی چیز کا نکلنا، مثلاً استحاضہ کا خون، کیڑا، کنکری وغیرہ۔
۳) بدن کے کسی حصہ سے نجاست کا بہنے کی مقدار میں نکلنا، مثلاً خون، پیپ، مواد، یا بیماری کی وجہ سے نجس پانی نکلنا۔
۴) منہ بھرکر قے۔
۵) نیند، جس سے اعضاء مضمحل ہوجائیں۔
۶) بے ہوشی، پاگل پن اور نشہ۔
۷) رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہہ۔
۸) مباشرتِ فاحشہ یعنی بلا کسی رکاوٹ کے شرم گاہ کا شرم گاہ سے ملانا، خواہ مرد کا عورت سے ہو یا مرد کا مرد سے، یا عورت کا عورت سے۔ (ملخص از: مسائل بہشتی زیور، مرتبہ: ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب از۱۲ تا ۲۰/بحوالہ کتاب المسائل)
صورتِ مسئولہ میں چونکہ کوئی ناقضِ وضو نہیں پایا گیا ہے اس لئے ہندہ کا وضو باقی ہے۔
سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ما الحَدَثُ؟ فَقالَ : ما يَخْرُجُ مِن السَّبِيلَيْنِ۔ (٣٨/١، فصل نواقض الوضوء، نصب الرایۃ)
كل ما خرج من السبيلين والدم والقيح والصديد إذا خرج من البدن فتجاوز إلى موضع يلحقه حكم التطهير والقيء إذا كان ملء الفم والنوم مضطجعا أو متكئا أو مستندا إلى شيء لو أزيل عنه لسقط والغلبة على العقل بالإغماء والجنون والقهقهة في كل صلاة ذات ركوع وسجود۔ (مختصر القدوري : ١١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 صفر المظفر 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں