*مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام ! شہرِ عزیز مالیگاؤں میں اسمبلی الیکشن کی گہماگہمی ہے، سیاسی جماعتیں ووٹروں کو رجھانے کے لیے جائز ناجائز ہر طرح کے حربے استعمال کررہی ہیں، یہاں تک کہ اپنی بات حق اور سچ ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث کا سہارا بھی لیا جارہا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث شریف بھی بعض حلقوں میں زیر بحث ہے جو بخاری ومسلم شریف میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ لہٰذا اس مضمون میں ہم اس حدیث شریف کا معنی و مطلب بیان کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ جو غلط فہمی اس حدیث شریف سے متعلق پھیل سکتی ہے اس کا سدباب ہوجائے۔
محترم قارئین ! سب سے پہلی بات یہ سمجھ لی جائے کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نوٹ کے بدلے ووٹ دیتی ہے، ایک طبقہ برادری کے نام پر ووٹ دیتا ہے اور ایک طبقہ تعلقات اور عقیدت کی بنیاد پر ووٹ دیتا ہے، اب ایسے حالات میں اگر اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہ کرنے والا امیدوار منتخب ہوجائے (ملحوظ رہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کے نزدیک مخالف جماعت کا امیدوار نااہل ہوتا ہے) تو اس کی وجہ سے اس حدیث شریف کے سمجھنے میں غلطی نہ کی جائے؟ جبکہ ووٹروں کے ایک بڑے طبقہ نے اپنی مومنانہ فراست کا استعمال ہی نہیں کیا، شریعت کی خلاف ورزی کرکے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری گئی ہے۔ لہٰذا ایسی جگہوں پر دوسروں کو عار دلانے کے لیے اس حدیث شریف کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ایک طبقہ شہر میں ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جو معاذاللہ احادیث پر بھی تنقید کردیتا ہے، کیونکہ بندے نے کل ایک پوسٹ دیکھی ہے جس میں مذکورہ حدیث شریف لافنگ ایموجیز کے ساتھ لکھی ہوئی ہے، اور یہی پوسٹ اس مضمون کے وجود میں آنے کا سبب بنی ہے۔
نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس حدیث شریف کا ایک خاص پس منظر ہے کہ زمانۂ رسالت میں عرب کا ایک مشہور شاعر ابوغرہ تھا اور اس کا تعلق کفار کے اس طبقہ سے تھا جو اسلام، ذات رسالت پناہ اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت اور سب شتم کے پہاڑ تراشنے پر مامور تھے چنانچہ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ مسلمانوں کی ہجو کیا کرتا تھا اور اپنی قوم کے شریر لوگوں کو مسلمانوں کی ایذاء و اہانت پر اکسایا کرتا تھا جب بدر کے میدان میں حق باطل کے درمیان پہلی معرکہ آرائی ہوئی اور اللہ نے اپنے مٹھی بھر بندوں کو دشمنان دین پر فتح عطا فرمائی اور مکہ کے بہت سارے کفار جس میں ان کے زعماء و اساطین بھی تھے قیدی بنا کر مدینہ منورہ لے گئے تو ان میں وہ بد بخت شاعر ابوغرہ بھی تھا اس نے بارگاہ رسالت میں اپنے پچھلے سیاہ ناموں پر اظہار ندامت کیا اور عفو خواہی کے ساتھ یہ عہد کیا کہ اب میں کبھی بھی ایسے افعال بد کے پاس نہیں پھٹکوں گا۔چنانچہ نبی کریم ﷺ کو اس بد بخت پر رحم و کرم کرنے کا موقع مل گیا اور آپ نے اس کے عہد و پیمان کی بنیاد پر اس کو رہا کر دیا لیکن اس کی ازلی شقاوت و بد بختی نے اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور وہ اپنی قوم میں پہنچ کر پہلی روش پر چلنے لگا یہاں تک کہ اللہ نے اس کو دوبارہ جنگ احد کے موقع پر قیدی کی حثییت سے بارگاہ رسالت میں پہنچا دیا اس نے اس مرتبہ بھی وہی عہد و پیمان کا حربہ استعمال کیا اور اظہار ندامت و عفو خواہی کے ساتھ امان چاہنے لگا اور آئندہ اپنی ان حرکتوں سے باز رہنے کا عہد و پیمان کیا لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کو معاف نہیں کیا اور اس کو جہنم رسید کر دینے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ اس کو قتل کر دیا گیا، اس وقت جب بعض لوگوں نے اس کی سفارش کی اور نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ اس کو ایک مرتبہ اور معاف فرما دیا جائے تو حضور ﷺ نے فرمایا مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔
چنانچہ اس پس منظر کی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ کسی دنیاوی معاملہ میں فریب کھا جانا زیادہ اہمیت نہیں رکھتا مگر کسی دین کے معاملہ میں فریب نہ کھانا چاہیے۔ بلکہ بعض علماء نے اس حدیث شریف کو صرف دینی معاملات پر ہی محمول کیا ہے کہ مومن دینی معاملات میں کسی سے دو بار دھوکہ نہیں کھاتا۔ کیونکہ ایک اور حدیث شریف ملتی ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤْمِنُ غِرٌّ کَرِيمٌ وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن آدمی بھولا بھالا (دھوکہ کھانے والا) اور شریف ہوتا ہے اور فاسق انسان دھوکہ باز اور کمینہ ہوتا ہے۔
غِرٌّ کے معنی ہیں دھوکہ کھانے والا شخص، اسی طرح صراحی وغیرہ میں غر کے معنی ناآزمودہ یا ناتجربہ کار نوجوان کے لکھے ہیں خب کے معنی ہیں وہ شخص جو دھوکہ دینے والا اور چالاک ہو۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نیکو کار شخص چونکہ طبعاً مطیع و فرمانبردار ہونے کی وجہ سے نرم مزاج، شریف النفس اور سادہ لوح ہوتا ہے اس لئے وہ ہر فریب کار شخص سے دھوکہ کھا جاتا ہے وہ نہ تو لوگوں کے مکر و فریب سے آگاہ ہوتا ہے اور نہ مکر و فریب کی باتوں اور چالوں کی چھان بین اور دھوکہ بازوں کے احوال کی تحقیق و جستجو کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ جاہل و نادان ہوتا ہے بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے مزاج کی نرمی و مروت حلم و کرم، عفو، درگزر کرنے کی عادت اور خوش خلقی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے حدیث کا مطلب اس اسلوب میں بیان کیا ہے کہ نیکوکار شخص چونکہ سلیم القلب اور سادہ لوح ہوتا ہے اس لئے وہ لوگوں کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھتا ہے کسی کے اندر کیا ہے اس کو وہ نہیں دیکھتا جس کے سینے میں کینہ ہوتا ہے اس کو وہ پہچانتا نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو شخص اس کے سامنے جو کچھ کہہ دیتا ہے اس کو مان لیتا ہے اور دھوکہ کھا جاتا ہے ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے سامنے آخرت کے معاملات اور نفس کی اصلاح کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور دنیا کے معاملات اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتے لہٰذا وہ اپنے نفس کی اصلاح اور آخرت کے کاموں میں مشغول رہتا ہے اور دنیا کے کاموں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا اس لئے اگرچہ وہ دنیاوی معاملات میں دھوکہ کھا جاتا ہے مگر آخرت کے معاملات میں ہوشیار اور عقل میں کامل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس حدیث شریف "مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا" کو الیکشن میں امیدوار کے انتخاب میں دھوکہ کھانے پر فٹ کرنے سے احتیاط کرنا چاہئے۔ (مستفاد : مشکوٰۃ مترجم)
اللہ تعالٰی ہم سب کو فراستِ ایمانی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی خو عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیراً کثیراً
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ، جزاکم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء ،بہت خوب مفتی صاحب بروقت رہنمائی کے لیے، اللہ تبارک و تعالٰی آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کا بہترین بدل آپ کو آپ کے اہل خانہ کو دنیا و آخرت میں عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ لا قوۃ الاباللہ
جواب دیںحذف کریں