*سفر میں سنتوں اور قضاء ہوئی نمازوں کا حکم*
سوال :
سفر کے لیے گھر سے نکل چکے ہیں اور راستے میں کسی مسجد میں فجر کی جماعت ادا کرنے کا موقع ملے تو کیا دو رکعت سنت موکدہ بھی ادا کرنا ہوگی؟
سوال نمبر 2 : سفر کے دوران فجر کی نماز سورج نکلنے کے بعد ادا کرنے کا موقع ملے تو اس وقت بھی دو رکعت سنت موکدہ ادا کی جائے گی یا صرف دو رکعت فجر کی قصر؟ (اکثر احباب (حنفی مسلک) دوران سفر دو رکعت سنت موکدہ فجر کی ضروری بتاتے ہیں، اس لئے)
سوال نمبر 3 : ظہر، عصر، عشاء، مقام پر (گھر) پہنچنے کے بعد قصر ادا کریں گے یا پوری 4 رکعتیں؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص شرعی مسافت یعنی 82 کلومیٹر یا اس سے زیادہ کے قصد سے اپنے شہر یا گاؤں کی حدود سے نکل جائے تو وہ اس وقت تک شرعاً مسافر کہلاتا ہے جب تک کہ وہ شرعی مسافت کے کسی مقام پر ٹھہر کر پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی نیت نہ کرلے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ مسافر ہیں، اور مسافر کے لیے سنتوں کا ترک کرنا جائز ہے، البتہ سفر میں اطمینان وسکون ہوتو سنت مؤکدہ پڑھ لینا بہتر ہے۔ اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں سنتِ مؤکدہ پڑھنا ثابت ہے، بالخصوص فجر کی سنتوں کے پڑھنے کا زیادہ اہتمام ہونا چاہئے۔ تاہم اگر کسی نے ترک کردیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ (1)
2) اگر سفر کے دوران نماز فجر قضاء ہوجائے اور زوال کے وقت تک فجر کی نماز قضا کی جارہی ہوتو یہ سنت بھی پڑھی جاسکتی ہے، لیکن اس وقت اسے ضروری سمجھنا درست نہیں، زوال کے بعد اگر نماز قضا کی جارہی ہوتو اس کے ساتھ سنت نہیں پڑھی جائے گی، صرف دو رکعت فرض پڑھی جائے گی خواہ سفر میں ہوں یا حالتِ اقامت میں۔ (2)
3) سفر کی حالت میں اگر یہ نمازیں قضا ہوئی ہیں تو حالتِ اقامت میں بھی قصر یعنی دو رکعت ہی پڑھی جائیں گی۔ اسی طرح اقامت کی حالت میں جو نمازیں قضا ہوئی ہوں اور انہیں سفر میں ادا کیا جارہا ہے تو یہ نمازیں مکمل ادا کی جائیں گی۔
1) ویأتی المسافر بالسنن إن کان فی حال أمن وقرار وإلا بأن کان فی خوف وفرار لا یأتی بہا، ہو المختار؛ لأنہ ترک لعذر وقیل إلا سنۃ الفجر۔ (درمختار مع الشامی ۲؍۶۱۳ زکریا)
وفی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ قال: وصلی فی السفر الظہر رکعتین وصلی بعدہا رکعتین وصلی العصر رکعتین ولیس بعدہا شیئ وصلی المغرب ثلاثاً وبعدہا رکعتین وصلی العشاء رکعتین وبعدہا رکعتین۔ (طحاوی شریف ۱؍۲۴۳)
2) وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما، وقال محمدؒ: أحب إلي أن یقضیہا إلی الزوال۔ (شامی زکریا ۲؍۵۱۲)
3) فیقضی ۔۔۔ المقیم في الإقامۃ ما فاتہ في السفر منھا رکعتین۔ (الفتاوی الھندیۃ : ۱/۱۲۱ ، باب في قضاء الفوائت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 صفر المظفر 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں