*جلیٹن سے بنے ہوئے کیپسول کے استعمال کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ دواؤں میں جوکیپسولس استعمال کیے جاتے ہیں ان کے خول کی تیاری میں جلیٹن کا استعمال ہوتا ہے، تو ایسے کیپسولس کے استعمال کا کیا حکم ہوگا؟
(المستفتی : محمد سعد، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جلیٹن مطلقاً حرام نہیں ہے، بلکہ اس کی مختلف قسمیں ہیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
جلیٹن کی ایک قسم تو وہ ہے جو پھلوں سے حاصل کی جاتی ہے جس کا استعمال جائز ہے۔
دوسرا جلیٹن وہ ہوتا ہے، جو حلال جانوروں کی ہڈیوں سے حاصل کیا جاتا ہے، اگر وہ جانور شرعی طریقہ پر ذبح کیا گیا ہو تو اس کا استعمال بھی جائز ہے۔
جلیٹن کی تیسری قسم وہ ہے جو حرام جانوروں یا پھر حلال مردار جانوروں کی ہڈیوں سے حاصل کیا جاتا ہے، اسکا استعمال حرام ہے۔
لہٰذا جب تک ان کیپسولوں میں حرام جلیٹن کے شامل ہونے کا یقینی طور پر علم نہ ہوجائے، بالخصوص اس صورت میں جب کہ ان کیپسولوں کا استعمال عام ہے، اور ہرطرح کے لوگ ان کو استعمال کررہے ہیں، تو محض شک وشبہ کی وجہ سے ان پر حرام کا حکم نہ ہوگا، بلکہ ان کا استعمال کرنا جائز ہوگا۔ لیکن جب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے کہ ان میں حرام جلیٹن ہی شامل ہوتا ہے تو اس صورت میں عام حالات میں ایسےکیپسولس کا استعمال جائز نہ ہوگا، البتہ اضطراری حالت (اس کے علاوہ اور کوئی جائز دوا نہ ہو) میں اس کے استعمال کی اجازت ہوگی۔
الیقین لا یزول بالشک۔ (۱/۲۲۰، الأشباہ لإبن نجیم)
ان ما ثبت بیقین لا یرتفع بالشک، وما ثبت بیقین لا یرتفع إلا بیقین۔ (۴۵/۲۷۹ ، یقین، الموسوعۃ الفقہیۃ )
یجوز للعلیل شرب البول والدم و أکل المیتۃ للتداوی إذا أخبرہ طبیب مسلم أن شفاء ہ فیہ ولم یجد من المباح مایقوم مقامہ۔ (ہندیہ، کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، زکریا جدید ۵/۴۱۰)
الاستشفاء بالمحرم إنما لا تجوز إذا لم یعلم فیہ شفاء، أما إذا علم أن فیہ شفاء ولیس لہ دواء أخر غیرہ یجوز الاستشفاء بہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ زکریا ۱۸/۲۰۰ رقم: ۲۸۵۰۴/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 صفر المظفر 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں