*واجب الاعادہ نماز میں نئے مصلی کا شریک ہونا*
سوال :
حضرت مفتی صاحب ! امام نے ظہر کی نماز پڑھائی دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قرأت کرنا بھول گئے، نماز کے بعد فوراً بعد لوٹا لیا جو مسبوق تھے وہ نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو گئے۔ یہی عمل بعد میں آنے والوں نے بھی کیا تو کیا بعد میں آنے والوں کی نماز ہوئی یا نہیں؟
مسائل کی بعض کتابوں میں لکھا ہے ایسی غلطی کرنے والا سجدۂ سہو کر لے تو نماز ہوجائے گی۔ اور کیا یہ صحیح ہے کہ واجب کے ترک سے جو نماز دہرائی جائے بعد میں آنے والے اس جماعت میں شریک نہیں ہو سکتے؟ وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : سراج احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ ملانا واجب ہے، جس کے ترک پر سجدۂ واجب ہوتا ہے سجدۂ سہو کرلینے سے نماز درست ہوجاتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں امام صاحب سے ظہر کی دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ ملانا چھوٹ گیا جس کی وجہ سے ان پر سجدۂ سہو واجب ہوا، اگر امام صاحب سجدۂ سہو کرلیتے تو نماز درست ہوجاتی۔ لیکن انہوں نے سجدۂ سہو نہیں کیا تو وقت کے اندر اس نماز کا لوٹانا واجب تھا۔ لہٰذا امام صاحب جب نماز دوہرانے کے لیے کھڑے ہوئے تو پہلی نماز میں جو مسبوق حضرات شریک تھے امام صاحب کی متابعت کی وجہ سے ان پر بھی سجدۂ سہو واجب ہوگیا، اب چونکہ امام نے سجدۂ سہو چھوڑ دیا تو ان کی نماز کی فرضیت تو ساقط ہوگئی لیکن جبر نقصان کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہے۔ ”ففي المراقي: ووجب علیہ إعادة الصلاة لجبر نقصہا فیکون مکملة وسقط الفرض بالأولی“ (۴۶۲)
البتہ جب امام صاحب نے دوبارہ نماز شروع کرادی تو مسبوقین کو اختیارہے اگر چاہیں تو اپنی نماز بلاسجدہٴ سہو کے پوری کرلیں پھر امام کی اقتداء کریں ” ففي الہدایة: فإن لم یسجد الإمام لم یسجد الموٴتم (ہدایہ: ۱/۱۵۸ ط: یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند) اور اگر چاہیں تو اپنی نماز توڑ دیں اورعلیحدہ نماز پڑھیں۔ اگر نماز توڑکر امام کے ساتھ شرکت کرلی تو نماز صحیح نہ ہوگی ان کو نماز لوٹانا چاہیے کیوں کہ امام کے ذمہ سے فرض پہلی نماز کی وجہ سے ساقط ہوگیا اوراعادہ جبر نقصان کی وجہ سے واجب ہے، لہٰذا نئے شخص کو اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔ ”ففي الدر: والمختار أنہ جابر للأول؛ لأن الفرض لا یتکرر“ (شامي: ۲/ ۱۴۸،ط: زکریا) اسی طرح اگر مسبوقین نے اپنی نماز سجدہٴ سہو کرکے پوری کرلی تو بھی ان کی نماز واجب الاعادہ ہے خواہ امام کے ساتھ شریک ہوکر پڑھیں یا علیحدہ۔ حدیث میں ہے : ”الإمام ضامن“ (مشکاة: ۶۵) قال الشامي: إذ لیس المراد بہ الکفالةبل التضمّن بمعنی أن صلاة الإمام متضمنة لصلاة المقتدي (۲/۳۴۰) اور امام کی نماز بوجہ ترک قعدہٴ اولیٰ وعدم سجدہٴ سہو واجب الاعادہ ہے، لہٰذا مسبوقین کی نماز بھی واجب الاعادہ ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند : رقم الفتوی : 57399)
نماز میں کوئی واجب چھوٹنے یا اس میں تاخیر ہونے کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے، اور اگر سجدۂ سہو نہ کیا جائے تو نماز ناقص رہ جاتی ہے، جسے مکمل کرنے کے لئے نماز کے اعادہ کا حکم دیا جاتا ہے، اور یہ نماز صرف وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوتی ہے، وقت ختم ہوجانے کے بعد فرض ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے، چنانچہ جب ایسی نماز کا اعادہ ہوتو اس میں نئے مصلیان اس میں شریک ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں علماء دیوبند کے مابین اختلاف ہے۔
جو علماء عدم شرکت کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ نماز اصل نماز نہیں ہے، بلکہ گذشتہ نماز کے نقصان کی تلافی کے لئے ادا کی جارہی ہے، جس کی حیثیت نفل کی ہے۔ چنانچہ فرض پڑھنے والے یعنی نئے مصلیان کا اس نماز میں شریک ہونا گویا نفل نماز پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنا ہے، لہٰذا نئے مصلیان کی نماز نہیں ہوگی۔ اور جو علماء شرکت کے قائل ہیں وہ دوسری نماز کو بھی اصل اور فرض ہی تسلیم کرتے ہیں۔
چنانچہ صاحبِ کتاب النوازل مفتی سلمان منصورپوری اس اختلافی مسئلہ کو تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر بعد میں آنے والے کو یہ پتہ ہو کہ یہ نماز دہرائی جارہی ہے، تو اس کے لئے نماز میں شرکت صحیح نہیں ہے، اور جسے پہلے سے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ صلوٰۃ معادہ ہے، تو اس کے لئے شرکت درست ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دوسری جماعت میں شریک ہونے والے نئے مصلیان کو اگر اس بات کا علم تھا کہ وہ نماز دوہرائی جارہی ہے تو ان کی نماز نہیں ہوئی وہ اپنی نماز دوہرالیں۔ اور جنہیں علم نہیں تھا ان کی نماز درست ہوگئی۔
اسی کے ساتھ یہ بھی سمجھ لیں کہ نماز میں کسی فرض کے چھوٹ جانے سے یا قرأت میں تغیر فاحش ہونے کی وجہ سے نماز کالعدم ہوجاتی ہے، اور اس کا لوٹانا وقت کے اندر بھی اور وقت کے ختم ہوجانے کے بعد بھی ضروری ہوتا ہے، لہٰذا ایسی نماز کے اعادہ میں بالاتفاق نئے مصلیان شریک ہوسکتے ہیں۔
لها واجبات لا تفسد بتركها و تعاد وجوبا في العمد و السهو إن لم يسجد له۔ (الدر المختار مع رد المحتار ١٤٧/٢ كتاب الصلاة، مطلب واجبات الصلاة، زكريا)
ان النقص إذا دخل في صلاة الإمام و لم يجبر وجبت الإعادة على المقتدي أيضا۔ (رد المحتار على الدر المختار ١٤٧/٢، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها، زكريا)
ومن المشایخ من قال: یلزمہ أن یعید ویکون الفرض ہو الثاني، والمختار أن الفرض ہو الأول، والثاني جبر للخلل الواقع فیہ بترک الواجب، قال ابن الہمام: لا إشکال في وجوب الإعادۃ؛ إذ ہو الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم ویکون جابراً للأول؛ لأن الفرض لا یتکرر وجعلہ الثاني یقتضي عدم سقوطہ بالأول الخ۔ (حلبي کبیر ۲۹۴ لاہور، شامي ۲؍۱۴۸)
ویؤخذ من لفظ الإعادۃ ومن تعریفہا بما مر أنہ ینوي بالثانیۃ الفرض؛ لأن ما فعل أولاً ہو الفرض فإعادتہ فعلہ ثانیاً؛ أما علی القول بأن الفرض یسقط بالثانیۃ فظاہر، وأما علی القول الاٰخر فلأن المقصود من تکریرہا ثانیاً جبر نقصان الأولیٰ، فالأولیٰ فرض ناقص، والثانیۃ فرض کامل مثل الأولیٰ ذاتاً مع زیادۃ وصف الکمال، ولو کانت الثانیۃ نفلاً لزم أن تجب القراء ۃ في رکعتہا الأربع، وأن لا تشرع الجماعۃ فیہا ولم یذکروہ۔ (شامي / باب قضاء الفوائت، مطلب: في تعریف الإعادۃ ۲؍۵۲۲ زکریا، تقریرات الرافعي ۲؍۵۷، حاشیۃ الطحطاوي علي مراقي للفلاح ۲۲۸، حلبي کبیر ۲۹۴، احسن الفتاوی ۳؍۳۴۱، امداد الفتاوی ۱؍۵۴۶، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 صفر المظفر 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں