*کون سی مُردہ مچھلی کھانا جائز نہیں؟*
سوال :
مچھلی کب اور کون سی حرام ہوتی ہے؟ زید کہتا ہے کہ جو مچھلی سمندر یا ندی، تالاب میں مر کر کنارے (اوپر) پر آجائے تو وہ مچھلی کھانا جائز نہیں ہے۔ کیا زید کی بات درست ہے؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیثِ مبارکہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال جانوروں میں سے دو جانور ایسے ہیں جنہیں مردہ ہونے کے باوجود کھانا جائز ہے، ایک جَراد جسے اردو میں ٹِدی کہتے ہیں، دوسرے مچھلی، ان دو جانوروں کے علاوہ اور کوئی حلال جانور ذبح کیے بغیر کھانا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ ایسی مچھلی جو پانی میں کسی آفت کی وجہ سے مرگئی ہو مثلاً پانی کی گرمی، ٹھنڈک یا دوا کے چھڑکاؤ یا شکاری کے ہتھیار کی ضرب کی وجہ سے مرگئی ہو تو ایسی مچھلی کو مُردہ ہونے کے باوجود بھی کھانا درست ہے، البتہ ایسی مچھلی جو پانی میں اپنی طبعی موت مری ہو اس کا کھانا جائز نہیں، ایسی مچھلی کی پہچان فقہاء نے یہ لکھی ہے کہ پانی میں اس کی پیٹھ نیچے اور پیٹ اوپر ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس طرح نہ اُلٹی ہو تو وہ آفت کی وجہ سے مرنے والی سمجھی جائے گی اور اس کا کھانا درست ہوگا۔
درج بالا تفصیلات کی روشنی میں سمجھ لیں کہ زید کی بات درست ہے یا نہیں؟ کیونکہ زید کا قول ہمیں مبہم اور غیر واضح معلوم ہوتا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ : الْحُوتُ، وَالْجَرَادُ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ٣٢١٨)
و لا يحل حيوان مائي إلا السمك الذي مات بآفة ۔۔۔۔ غير الطافي على وجه الماء الذي مات حتف أنفه و هو ما بطنه من فوق فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل۔ (الدر المختار، كتاب الذبائح، ٢٢٩/٢ )فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 محرم الحرام 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں