سوال :
محترم مفتی صاحب ! سیاسی لیڈران کی دعوت میں شرکت کرنا یا وہاں پر کھانا کیسا ہے؟ الیکشن کے ایام کے علاوہ اور الیکشن کے ایام کا کیا حکم ہے؟ وضاحت کے جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ملک فیصل، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عام دنوں میں مسلمان سیاسی شخصیات کی دعوت قبول کرنے کا وہی حکم ہے جو ایک عام مسلمان کی دعوت قبول کرنے کا ہے۔ مطلب یہ کہ جس شخص کی آمدنی کا اکثر حصہ حلال ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا درست ہے خواہ وہ سیاسی شخص ہو یا کوئی عام فرد ہو، اور اگر اس کی آمدنی کا اکثر حصہ حرام ہے اور اس کا یقینی علم ہوتو اس کی دعوت قبول کرنا اور اس کے یہاں کھانا جائز نہیں ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
الیکشن کے موقع پر امیدوار،لوگوں کو جو مٹھائیاں، پکوڑیاں وغیرہ کھلاتے ہیں، اُن کی دعوت کرتے ہیں یا انھیں کچھ دیتے ویتے ہیں، اِس میں اُن کا مقصد بہ ظاہر ووٹ کے لیے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے کہ لوگ انھیں ووٹ دیں،اگرچہ وہ زبان سے اپنے لیے ووٹ نہ مانگیں یا یہ کہہ دیں کہ ووٹ جس کو چاہو دو، اور ووٹ شریعت کی نظر میں بعض پہلووٴں سے شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور شہادت پر کسی قسم کا کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں۔ (جواہر الفقہ جدید، ۵: ۵۳۵، ۵۳۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)
اس لیے الیکشن کے موقع پر کسی امیدوار کی کوئی مٹھائی وغیرہ نہیں کھانی چاہیے اور نہ ہی اس طرح کی دعوت میں شریک ہونا چاہیے بالخصوص علما، صلحا، ائمہ مساجد اور اہل مدارس کو، یہ صریح رشوت نہ ہو تو کم از کم اس میں رشوت کا شائبہ ضرور ہے۔(رقم الفتوی : 177763)
معلوم ہوا کہ الیکشن کے ایام میں امیدوار (خواہ اس کی آمدنی حلال ہو) کی جانب سے جو دعوت دی جاتی وہ اصلاً لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس میں رشوت کا شبہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی دعوتوں میں کھانا کھانے بچنا چاہیے۔
لا للشاھد (أي: لا یجوز أخذ الأجرة للشاھد) (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الشھادات، ۸:۱۷۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۷: ۶۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔
قال اللّٰہ تعالیٰ:﴿وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ﴾ بالرشوة وسائر الوجوہ المحرمة (مدارک التنزیل وحقائق التأویل، سورة آل عمران، رقم لآیہ: ۴۲، ۱:۲۰۲)۔
وقال تعالی أیضاً في مقام آخر: ﴿سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ﴾ (سورة المائدة، رقم الآیة: ۴۲)۔
اتفق جمیع المتأولین لہٰذہ الآیة علی أن قبول الرشا محرم، واتفقوا علی أنہ من السحت الذي حرمہ اللّٰہ تعالی (أحکام القرآن الکریم للجصاص، سورة المائدة، باب الرشوة، ۴: ۸۵، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)۔
من أخذ مال غیرہ لا علی وجہ إذن الشرع، فقد أکلہ بالباطل (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ۲:۳۲۳، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)۔
أہدی إلی رجل شیئاً أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال، فلابأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ہو الحرام ینبغي أن لایقبل الہدیۃ، فلا یأکل بالطعام۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، ۵؍۳۴۲)
وإن کان غالب مالہ الحرام لایقبلہ ولا یأکلہ۔ (الأشباہ والنظائر ۱؍۱۴۷)
قال العلامۃ ابن عابدین : الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 محرم الحرام 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں