*الیکشن کے ایام میں امیدوار سے پیسے لینا*
سوال :
مفتی صاحب الیکشن کے دنوں میں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے گلی گلی گھوم کر عورتوں کو کچھ رقم سیاسی لیڈران دے رہے ہیں اور اس کو نام یہ دیا جارہا ہے کی یہ چائے پانی خرچ ہے اور یہ جملہ بولا جارہا ہے کی یہ پیسہ تمہاری ووٹ خریدنے کیلئے نہیں بلکہ بطور خرچ دیا جارہا ہے تو اس نام سے ان لوگوں سے پیسہ لینا شرعی طور پر کیسا ہے؟
دوسرا سوال کہ اس پیسے کے لین دین کو کوئی شخص جائز مانتا ہو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اور جو لوگ ان جیسے کاموں میں ملوث ہیں ان کا اگر ہم ساتھ دیں تو شرعی طور سے اس عمل کی کیا حیثیت ہے؟
(المستفتی : محمد سلیم، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں الیکشن کے ایام میں سیاسی لیڈران (امیدوار) کی طرف سے عوام کو دی جانے والی رقم خواہ چائے پانی کے نام سے ہی کیوں نہ ہو رشوت ہی ہے، اس لئے کہ الیکشن کے ایام میں ہی انہیں چائے پانی کے خرچ کا خیال کیوں آیا؟ الیکشن کے ایام کے علاوہ انہیں کبھی عوام کے چائے پانی کا خیال کیوں نہیں آتا؟ پیسے بانٹنے والا امیدوار اگر ہار جائے تو کیا وہ یہ نہیں سوچے گا کہ پیسے لینے والوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے؟ نیز اگر امیدوار کو یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ پیسے لینے والے نے مجھے ووٹ نہیں دی ہے تو کیا وہ اسے دھوکے باز نہیں سمجھے گا؟ اسی طرح اگر اس کا بس چل جائے تو وہ دھوکہ دینے والوں سے اپنا پیسہ وصول کرنے کی کوشش نہیں کرے گا؟
مذکورہ بالا وجوہات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ رقم رشوت ہی ہے کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں رشوت وہ مال ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے، جس کا لینا اور دینا دونوں شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس کے لین دین پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔ (2)
ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (3)
ذکر کردہ احادیث مبارکہ رشوت کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں، کیونکہ لعنت یعنی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشوت گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اس ملعون عمل سے خود بھی بچے اور بقدر استطاعت دوسروں کو بچانے کی کوشش بھی کرے۔
جو شخص اس طرح کے لین دین کو جائز سمجھتا ہو وہ صریح جہالت اور گمراہی میں ہے، اسے فوراً توبہ و استغفار کرکے اس کام سے باز آجانا چاہیے اور اگر اس نے کسی امیدوار سے رقم لے لی ہے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے، اگر واپس کرنا ممکن نہ ہوتو یہ رقم بلانیتِ ثواب غرباء و مساکین میں تقسیم کرنا ضروری ہے، اس کا ذاتی استعمال قطعاً جائز نہیں ہے۔ (4)
جو لوگ رشوت کے لین دین جیسے ملعون عمل میں ملوث ہیں ان کا ساتھ دینا یعنی رشوت کے معاملات میں ان کے ساتھ رہنا اور اس کی دلالی کرنا بھی ملعون عمل ہے، اس لئے کہ ایک حدیث شریف میں رشوت کی دلالی کرنے والے پر بھی لعنت کی گئی ہے۔ (5)
1) قال العلامۃ ابن عابدین : الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)
2) عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم،)
3) عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبیﷺ: الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/۵۵۰، رقم:۲۰۲۶،)
4) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)
5) لَعنَ اللَّه الرَّاشيَ والمرتشيَ والرَّائشَ.
الراوي : عبدالله بن عمر
المحدث: العجلوني
المصدر: كشف الخفاء
الصفحة أو الرقم: 2/186
خلاصة حكم المحدث: سنده حسن)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 محرم الحرام 1441
Allah paak aap ki bebaki ka bahtreen badla aata farmaye..ameen
جواب دیںحذف کریں