*جمعہ کی نماز میں مقررہ وقت سے تاخیر کرنا*
سوال :
جمعہ کی جماعت کا وقت 1:45 ہے اب اگر اپنے وقت سے پانچ دس منٹ تاخیر سے جماعت ہوتی ہے تب ایک شخص اسے مکاری، دھوکہ دینا اور وعدہ خلافی کہتا ہے کیا اس کا یہ الفاظ کہنا درست ہے؟
(المستفتی : نعیم الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کی نماز مقررہ وقت پر کھڑی کرنے کے سلسلے میں بہت سی مساجد میں لاعلمی کی وجہ سے کوتاہی ہورہی ہے، لہٰذا جواب میں اس مسئلے سے متعلق تمام باتیں ذکر کی جائیں گی، جس میں تاخیر کا تفصیلی حکم، اس کا حل وغیرہ تمام باتیں موجود ہوں گی۔
ہمارے شہر میں فی الحال جمعہ کی پہلی اذان، تقریر، خطبہ اور نماز کی ادائیگی دو طرح کے اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔
ایک طریقہ تو یہ ہے جو بعض مساجد میں اختیار کیا گیا ہے کہ پہلی اذان سے تقریباً نصف گھنٹہ قبل تقریر شروع ہوتی ہے اور پہلی اذان تک چلتی رہتی ہے، جیسے ہی اذان کا وقت ہوتا ہے اذان دے دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مقرر اذان کے اختتام تک اپنی بات بہرحال سمیٹ لیتا ہے۔ پھر سنت کے لیے وقفہ ہوتا ہے اس کے بعد مقررہ وقت پر دوسری اذان، خطبہ اور نماز ہوجاتی ہے۔ جس میں تکلیف دہ تاخیر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طریقہ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اذانِ اول اور ثانی کے درمیان وقفہ کم ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ پہلی اذان کے فوراً بعد ہی مسجد پہنچ جاتے ہیں، اور اس قرآنی حکم کی پامالی سے بھی بچ جاتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جمعہ اذان کے بعد خرید و فروخت بند کرکے نماز کے لیے سعی کی جائے۔ جسے فقہاء نے مکروہِ تحریمی لکھا ہے۔ اسی کے ساتھ اذانِ اول کے فوراً بعد مسجد پہنچنے کی فضیلت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ جبکہ پہلی اور دوسری اذان میں وقفہ زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ نماز کی تیاری کو چھوڑ کر دیگر کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور گناہ گار ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ طریقہ بڑا محفوظ اور مامون ہے، لیکن یہ طریقہ اب تک ان مساجد میں رائج ہے جہاں نماز اول وقت میں ہوتی ہے، دیگر عام اوقات والی مساجد میں بھی اس کا تجربہ ہونا چاہئے اور لوگوں کو اس کے فوائد بتانا چاہئے، ان شاء اللہ نماز میں تاخیر ہونے کا مسئلہ بالکل ختم ہوجائے گا۔
دوسرا طریقہ وہ ہے جو شہر کی بقیہ تمام مساجد میں رائج ہے کہ پہلے اذان ہوتی ہے، کچھ توقف کے بعد یا پھر فوراً تقریر شروع ہوجاتی ہے، تقریر ختم ہونے کے بعد سنت کا وقت دیا جاتا ہے، پھر اذانِ ثانی، خطبہ اور نماز ہوتی ہے۔ اس صورت میں ہی عموماً مقررین سے تاخیر ہوتی ہے، چنانچہ یہ تاخیر کبھی کبھار پانچ سات منٹ تک ہوتو اسے عذر کہا جاسکتا ہے، کیونکہ بعض مرتبہ مقرر کو وقت کا اندازہ نہیں ہوپاتا یا پھر کوئی اہم بات بیان کی جارہی ہے جس کا مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ بات ادھوری رہ جانے کی وجہ سے اس کا غلط مطلب نہ سمجھ لیا جائے، البتہ وقتِ مقررہ سے تاخیر کا معمول بنالینا اور متعینہ وقت کی پاسداری نہ کرنا بلاشبہ وعدہ خلافی ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ عہد اور وعدہ کی ایک قسم وہ ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام معاہدات سیاسی تجارتی معاملاتی شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ معاہدات خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا پورا کرنا واجب ہے اور جو خلافِ شرع ہوں ان کا فریقِ ثانی کو اطلاع کرکے ختم کردینا واجب ہے۔ جن معاہدات کا پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی پورا نہ کرے تو دوسرے کو حق ہے کہ وہ عدالت میں دعویٰ کرکے اس کو پورا کرنے پر مجبور کرے۔ معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریق کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو۔ اور اگر کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کردوں گا تو اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے، اور بعض حضرات نے اس کو بھی عہد کے اس مفہوم میں داخل کیا ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ معاہدہ فریقین کی صورت میں اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو دوسرا فریق اس کو بذریعہ عدالت تکمیل معاہدہ پر مجبور کرسکتا ہے مگر یک طرفہ وعدہ کو عدالت کے ذریعہ جبراً پورا نہیں کراسکتا ہاں بلاعذر شرعی کے کسی سے وعدہ کرکے جو خلافِ ورزی کرے گا وہ شرعاً گناہ گار ہوگا۔ (مستفاد : معارف القرآن)
ذکر کردہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت کا بورڈ لگادینا یک طرفہ وعدہ کی قبیل سے ہے جس کی پابندی کرنا ضروری ہے، بلاعذر تاخیر کی صورت میں مقرِّر/امام گناہ گار ہوں گے، اور تاخیر کی وجہ سے مصلیان کو غیرمعمولی تکلیف ہو تو یہ ایذائے مسلم میں بھی داخل ہے۔
وعدہ خلافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ اوقاتِ نماز کے بورڈ پر یہ لکھ دیا جائے کہ نماز فلاں وقت کے بعد ہوگی، مثلاً جماعت کا وقت پونے دو بجے ہے تو لکھا جائے کہ نماز *1:45 کے بعد* ہوگی یا اس کا اعلان کردیا جائے، اس صورت میں چونکہ مخصوص وقت متعین نہیں ہوا ہے، اس لئے پونے دو سے دو بجے تک کے درمیان کبھی بھی نماز کھڑی کی جاسکتی ہے۔ جس کی وجہ سے تاخیر سے آکر گھڑی دیکھنے والوں کو اعتراض کا حق بھی نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی انتشار کا اندیشہ باقی رہے گا۔
صورتِ مسئولہ میں اس شخص کا بلاعذر تاخیر کرنے کو وعدہ خلافی کہنا تو درست ہے جیسا کہ اوپر گذرا، لیکن اسے مکاری اور دھوکہ کہنا بذاتِ خود ظلم ہے، کیونکہ دھوکہ اسے کہا جاتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کو اندھیرے میں رکھ کر اور اسے نقصان پہنچا کر خود فائدہ اٹھالے جبکہ یہاں یہ معاملہ نہیں ہے، اس لئے کہ یہاں تاخیر لوگوں کی خیرخواہی کے جذبہ سے ہوتی ہے کہ کچھ دیر اور دین کی بات سُن لی جائے، اگرچہ ایسا کرنا وعدہ خلافی اور غلط ہے، لیکن اسے دھوکہ کہنا بھی غلط ہے۔ لہٰذا اس شخص کو اپنی سخت کلامی پر امام صاحب سے معافی مانگنا چاہیے اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ علماء و ائمہ سے انتہائی ادب و تمیز سے بات کرنا چاہیے، اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ علماء کرام سے بدزبانی کرنا دنیا و آخرت میں سخت خسارے کا سبب ہے۔
قال اللہ تعالٰی : وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا۔ (سورۃ الاسراء، آیت :۳۴)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: آیۃ المنافق ثلاث: إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان۔ (صحیح البخاري، کتاب الإیمان / باب علامۃ المنافق رقم: ۳۳)
قال الملا علی القاری ان من وعد ولیس من نیتہ ان یفی فعلیہ الاثم سواء وفی بہ اولم یف فانہ من اخلاق المنافقین۔ (مرقاۃ، ۴؍۶۴۷، باب الوعد)
عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵)
وفی جامع الفصولین بغض عالمًا او فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون فی مسائل کلمات الکفر ۲/۳۰۹، بحوالہ فتاوی فلاحیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 محرم الحرام 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں