*منفرد کے لیے ادا نمازوں میں قرأت کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ ایک صاحب کہتے ہیں کہ جو شخص جہری نماز کو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھ سکا وہ اپنی نماز اکیلے جہر سے ہی ادا کرے اور سری نماز کو سری ہی پڑھے۔ آپ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ظفر احمد، بھڑگاؤں، ضلع جلگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور شخص کی اتنی بات درست ہے کہ منفرد یعنی جو شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو اس کے لیے سِرّی نمازوں (ظہر، عصر) میں سرّاً قرأت کرنا واجب ہے۔ اور غالباً اسی مسئلہ پر قیاس کرتے ہوئے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ منفرد کے لیے جہری نمازوں میں جہراً قرأت کرنا واجب ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ جو نمازیں جہری ہیں، (فجر، مغرب، عشاء) ان میں منفرد کو اختیار ہے۔ آواز سے بھی قرأت کرسکتا ہے اور آہستہ بھی کرسکتا ہے۔ اس کے لیے جہراً قرأت کرنا واجب نہیں۔
والإسرار یجب علی الإمام والمنفرد فیما یسر فیہ وہو صلاۃ الظھر والعصر والثالثۃ من المغرب والأخریان من العشاء۔ (شامی : ۲؍۱۶۳)
ویخافت المنفرد حتمًا أو وجوباً إن قضی الجھریۃ فی وقت المخافۃ۔۔۔ لکن تعقبہ ‘ غیر واحد و رجحوا تخییرہ (الدر المختار مع الرد : ۲/۲۵۲-۲۵۱)
قال فی التنویر و شرحہ : ویجھر الإمام فی الفجر وأولی العشائین اداء ً وقضائً … و یخیر المنفرد فی الجہر، وھو أفضل الخ (باب صفۃ الصلاۃ، ۱/۴۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 محرم الحرام 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں