سوال :
کیا شہر کی کسی ایک مسجد میں نمازعید ہوجانے کے بعد تمام شہر والوں کے قربانی کرنا جائز ہوگا؟ نیز اطراف میں جو گاؤں وغیرہ ہیں ان کے لئے بھی شہر کی مسجد کی نماز عید کافی ہے یا ان کا الگ حکم ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عباداللہ، تھانہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی کا اصل وقت ۱۰؍ذی الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوکر ۱۲؍ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے تک رہتا ہے۔ البتہ وہ شہر اور بڑے گاؤں جہاں عید کی نماز ہوتی ہے وہاں کی عیدگاہ یا کسی مسجد میں نماز عید الاضحی ہوجانے کے بعد ہی قربانی درست ہوگی۔ اگر کسی بھی عیدگاہ یا مسجد میں نماز ہونے سے پہلے قربانی کرلی گئی تو یہ قربانی درست نہ ہوگی، قربانی کرنے والا صاحبِ نصاب ہوتو نماز کے بعد دوبارہ قربانی کرنا اس پر واجب ہوگا۔
اَحادیثِ مبارکہ میں عیدالاضحیٰ کے دن اَفعال کی یہ ترتیب بیان فرمائی گئی ہے کہ اَولاً نماز پھر قربانی، جس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ آبادی جہاں عید کی نماز ہی نہیں ہوتی، وہاں یہ ترتیب بھی ملحوظ نہ ہوگی اور شرعی دن کی ابتداء یعنی صبح صادق کے بعد ہی سے وہاں قربانی جائز ہوجائے گی۔ تاہم ان لوگوں کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ سورج طلوع ہونے کے بعد ہی قربانی کریں۔
واول وقتہا بعد فجر النحر… وآخرہ قبیل غروب الیوم الثالث۔ (ملتقی الابحر : ۴؍۱۶۹)
وقت الاضحیۃ یدخل بطلوع الفجر من یوم النحر الا انہ لا یجوز لاہل الامصار الذبح حتی یصلی الامام العید۔ (ہدایۃ ۴؍۴۲۹، درمختار زکریا ۹؍۴۶۰، کراچی ۶؍۳۱۸، بدائع الصنائع زکریا ۴؍۱۹۸، ہندیۃ ۵؍۲۹۵، مسائل قربانی وعقیقہ ۱۴)
والصحیح قولنا لحدیث من ذبح قبل الصلاۃ فلیعد أضحیتہ، وقال: أول نسکنا في یومنا ہٰذا الصلاۃ ثم الذبح، ولیس لأہل القریٰ صلاۃ العید فلا یثبت الترتیب في صحتہم۔ (بذل المجہود ۱۳؍۲۴ مصر)
والوقت المستحب للتضحیۃ في حق أہل السواد بعد طلوع الشمس۔ (ہندیۃ ۵؍۲۹۵)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ذی الحجہ 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں