*وطنِ اقامت کب باطل ہوتا ہے؟*
سوال :
حضرت مفتی صاحب ! حاجی حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن سے زائد قیام کرنے کے بعد مدینہ منورہ جائے اور آٹھ دن قیام کرنے کے بعد جب دوبارہ مکہ مکرمہ لوٹے گا تو مکہ میں مقیم کہلائے گا یا مسافر؟ کیونکہ مدینہ جانے سے پہلے وہ مکہ میں مقیم تھا، خلاصہ یہ کہ اب دوبارہ مکہ مکرمہ لوٹنے کے بعد وہ پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا؟
(المستفتی : سراج احمد، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا سے متعلق ذیل میں ایک اصول بیان کیا جارہا ہے اگر اسے سمجھ لیا جائے تو آپ کے ارسال کردہ سوال اور اس جیسے دیگر مسائل کا سمجھنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔
وطنِ اقامت وہ مقام ہے جہاں آدمی مسافتِ سفر یعنی 82 کلومیٹر پر پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کی نیت سے ٹھہرے، ایسا شخص مقیم کہلائے گا، اور یہاں نمازوں میں اتمام کرے گا یعنی پوری پڑھے گا۔ اب اگر وہاں سے مسافت سفر (82 کلومیٹر) کے ارادہ سے روانہ ہوجائے تو وطنِ اقامت باطل ہوجاتا ہے۔ وطنِ اقامت باطل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب اگر واپس اسی مقام پر آئے اور پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہوتو وہ مسافر رہے گا، اور نمازوں میں قصر کرے گا۔
صورتِ مسئولہ میں پندرہ دن قیام کے ارادہ کی وجہ سے حاجی کے لیے مکہ مکرمہ وطنِ اقامت بن گیا تھا، لیکن جب وہ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگیا جو کہ شرعی مسافت (82 کلومیٹر) سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے مکہ مکرمہ جو وطن اقامت بن چکا تھا وہ باطل ہوگیا۔ لہٰذا اب اگر حاجی مدینہ منورہ سے واپس مکہ مکرمہ آتا ہے اور اس کی نیت پندرہ دن سے کم قیام کی ہوتو وہ مسافر رہے گا، اور نمازوں میں قصر کرے گا۔ اور اگر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہوتو مکہ مکرمہ دوبارہ اس کے لیے وطنِ اقامت بن جائے گا، اور وہ یہاں نمازوں میں اِتمام کرے گا۔
ووطن الإقامۃ، وہو موضع الذی ینوی المسافر أن یقیم فیہ خمسۃ عشر یوما فصاعدا۔ (زیلعي، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، ۱/ ۵۱۷)
ویبطل وطن الإقامۃ بمثلہ، وبإنشاء السفر الخ۔ (الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ۲/ ۶۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1440
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں