سوال :
مفتی صاحب بعض مساجد میں لکڑی کا عصا ممبر کے قریب رکھا ہوتا ہے اور امام صاحب خطبہ کے وقت بھی اسے ہاتھ میں لیکر خطبہ نہیں دیتے عصا ویسے ہی رکھا جاتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ عصا کا منبر کے قریب رکھنا سنت ہے یا ہاتھ میں لیکر خطبہ دینا سنت ہے؟ اسی طرح عام طور پر عصا کا استعمال سنت کی نیت سے کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : عبدالرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خطیب کے لئے خطبہ کے وقت عصاء ہاتھ میں لینے کے متعلق مفصل جواب مفتی اعظم مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے، جسے تسہیل و ترتيب کے ساتھ نقل کیا جارہا ہے، جو مسئلہ ھذا کو سمجھنے میں ان شاء اللہ کافی شافی ہوگا۔
خطیب کے لئے بوقتِ خطبہ عصاء ہاتھ میں لینے کے متعلق چند روایات منقول ہیں جن میں سے قابلِ اعتماد تو صرف ابوداؤد کی روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ فَقَامَ مُتَوَکِّئًا عَلَی عَصًا أَوْ قَوْسٍ ۔ (آپ ﷺ ایک عصا یا کمان پر سہارا لگا کر کھڑے ہوئے) اگرچہ اختلاف اسکی سند میں بھی ہے، اس کے علاوہ مجمع الزوائد میں۔ باب علی ای شئی یتکی الخطیب میں اس مضمون کی تین روایات حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت سعد قرظؓ سے مروی ہیں، لیکن یہ تینوں روایتیں ضعیف الاسناد ہیں، البتہ مجموعہ روایت سے بظن غالب اتنا ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے بوقت خطبہ کبھی کبھی کمان یا عصا ء دست مبارک میں لی ہے اور صحیح مسلم کی ایک روایت باب العیدین میں ہے قَامَ مُتَّکِئًا عَلَی بِلَالٍ۔ (خطبہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت بلال کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے) جس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات نہ عصاء ہاتھ میں لی نہ قوس بلکہ حضرت بلال ؓ کے مونڈھے پر دست مبارک ٹیک لیا۔ اس کے بعد یہ امر غور طلب ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ عمل یعنی کبھی قوس اور کبھی عصاء کبھی حضرت بلالؓ پر تکیہ لگانا بطور عادت کے پیش آیا ہے یا بطور عبادت کے؟ اس میں حضرات فقہاء کی نظریں مختلف ہوگئیں۔بعض حضرات نے عادۃً سمجھا اور خطبہ کے سنن یا آداب میں داخل نہیں کیا بلکہ ایک مباح اور جائز عمل قرار دیا۔
فقہاء حنفیہ میں جو مختلف روایات میں اس کا سبب بھی نظر کا اختلاف ہے۔ درمختار، شامی، بحر وغیرہ میں اس کو مستحب قرار دیا ہے اور خلاصۃ الفتاویٰ اور محیط میں مکروہ لکھا ہے اور مراد اس کی غالباً یہ ہے کہ اس پر ایسا التزام و دوام کرنا جیسے سنن مؤکدہ پر کیا جاتا ہے یہ مکروہ ہے اور طحطاوی علی المراقی الفلاح میں خلاصۃ کے قول کے بعد یہ بھی لکھا ہے۔
احناف کا ظاہر مذہب جو عامۃً متون و شروح و فتاوی سے ظاہر ہوتا ہے یہی ہے کہ اس فعل کو منجملہ عادت قرار دیا گیا ہے جو بوقت خطبہ جائز ضرور ہیں، لیکن خطبہ کے آداب و استجاب میں داخل نہیں۔ کنز، ہدایہ، بدائع، وغیرہ کُتُبِ قفہ حنفیہ میں اس کو آداب خطبہ میں شمار نہیں کیا گیا ہے، کنز و ہدایہ میں تو یہ بھی احتمال ہے کہ بوجہ اختصار کے آداب کا ذکر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ بدائع الصنائع میں تو مفصل طور پر سنن و آداب خطبہ ذکر کئے ہیں مگر ان کا علی القوس یا عصاء کا کہیں نام نہیں۔
ہمارے بزرگ جن کو ہم نے دیکھا ہے انکا معمول عموما ً بوقت خطبہ عصاء ہاتھ میں لینے کا نہیں تھا اور وجہ یہی ہے کہ یہ فعل سنن مقصودہ میں سے تو ہے نہیں، محض عادات میں سے ہے جس کے ترک سے کوئی ادنیٰ کراہت خطبہ میں پیدا نہیں ہوتی۔ دوسری طرف عجمیوں کی عادت عام طور پر یہ ہے کہ خطبہ ہاتھ میں لے کر دیکھ کر پڑھا جاتا ہے، اس صورت میں ایک ہاتھ میں خطبہ اور دوسرے ہاتھ میں عصاء سنبھالنا دشواری اور تکلیف سے خالی نہیں، اس لئے عموماً ہمارے سب بزرگوں کا عمل ترک ہی پر رہا ہے اور خود سیدی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے آخر تک یہی عمل رہا ہے اور ترجیح الراجح میں سنیت کو قبول کرنے کا مطلب اس سے زائد نہیں اس کو تسلیم فرما لیا کہ آنحضرت ﷺ سے یہ فعل منقول ہے، اس لئے فی الجملہ سنت کہا جاسکتا ہے اگرچہ وہ سنن عادیہ میں سے یعنی بطور عادت ہی کے ہو۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کے افعال عادیتہ کو بھی ایک حیثیت سے سنت کہا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام احقر کے نزدیک اس باب میں یہ ہے کہ بوقتِ خطبہ عصاء یا کمان وغیرہ لینا حدیث سے ثابت اور مشروع ہے، کوئی شخص اس پر عمل کرے تو وہ قابل نکیر نہیں، لیکن اس کی دوسری جانب بھی قابل نکیر نہیں، کیونکہ یہ سنن عادیہ میں سے ہے جیسے امام کے لئے عمامہ اور سنن عادیہ کا ایسا اہتمام و التزام جیسے سنن مؤکدہ یا واجبات کا ہوتا ہے۔ خود اس فعل کو بدعات کی قبیل میں داخل کردیتا ہے اور اس کا ترک اولیٰ ہوجاتا ہے، ہمارے بلاد میں جبکہ خطیب ہاتھ میں خطبہ لے کر پڑھتا ہے تو بلاشبہ عصا وغیرہ لینے اور سنبھالنے میں الجھن اور تکلف ہوگا اور شریعت نے اس الجھن میں پڑنے کا حکم نہیں کیا ایسی حالت میں ترک کردینا ہی اسلم معلوم ہوتا ہے۔ ہاں کوئی حفظ سے خطبہ پڑھے تو عصاء وغیرہ ہاتھ میں رکھنا افضل ہوگا۔ الغرض اس فعل کے ترک یا عمل کو معرکہ بحث بنانا، اِس عمل کو اُس کی حد شرعی سے نکالنا ہے، بلکہ اسلم یہ ہے کہ کوئی کرے تو اس پر نکیر نہ کی جائے اور کوئی نہ کرے تو اس پر بھی نکیر نہ ہو پھر عمل کرنے والے اگر داہنے ہاتھ میں عصاء رکھیں یہ اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے لیکن اگر بائیں ہاتھ میں لے لیں تو اس پر بھی نکیر نہ کرنا چاہیے کیونکہ حدیث محتمل ہے، اور صریح نقل کسی جانب موجود نہیں۔ (امداد المفتین ص : 279/282)
درج بالا تفصیلات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اصل عمل عصاء ہاتھ میں لینا ہے نہ کہ منبر کے قریب رکھنا ہے۔ نیز اگر کوئی سنت کی نیت سے بغیر کسی تکلف کے عصاء ہاتھ میں لے کر خطبہ دے تو امید ہے کہ وہ اجر ثواب کا مستحق بھی ہوگا۔
وفی الخلاصۃ : ’’ یکرہ أن یتکئ علی قوس أو عصا (درمختار) وفی الشامیۃ : ’’وفی روایۃ أبی داؤد أنہ ﷺ قام أی فی الخطبۃ متوکئاً علی عصا أو قوس اھ و نقل القہستانی عن عبدالِمحیط: ’’ان أخذ العصا سنۃ کالقیام‘‘ (رد المحتار، باب الجمعۃ ۲/۱۶۳، سعید)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 ذی الحجہ 1440
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں