*متمتع مدینہ سے واپسی پر قِران کا احرام باندھ لے*
سوال :
مفتی صاحب مسئلہ عرض یہ ہے کہ مالیگاؤں کے چند لوگ حج کے لئے تشریف لے گئے۔ حج سے پہلے انہوں نے مدینہ منورہ کی زیارت کی اور دوبارہ مکہ واپسی پر انہوں نے ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر حج قران کی نیت کرلی۔ تو اب چونکہ ان لوگوں نے پہلے ہند سے مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کیا اور احرام کھول دیا۔ اب دوبارہ حج قران کی نیت کرنے سے حج درست ہوگا یا نہیں مزید یہ کہ دم واجب ہوگا یا نہیں؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر فراز فہمی، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آفاقی شخص اشہر حج میں عمرہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ چلا جائے تو اس کا وہاں سے لوٹتے وقت حجِ قران کا احرام باندھنا امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر اس نے ذوالحلیفہ سے قران کا احرام باندھ ہی لیا تو اس پر لازم ہے کہ عمرہ کا احرام فسخ کرکے دم جنایت ادا کرے، اگر عمرہ کا احرام فسخ نہیں کیا اور آکر دوبارہ عمرہ کرلیا تب بھی دم جنایت واجب ہوگا، اور بہر صورت وہ قارن نہیں ہوگا، بلکہ متمتع ہی کہلائے گا، اور تمتع کا دم شکر اس پر واجب رہے گا۔ اس مسئلہ میں گو کہ صاحبین کا اختلاف ہے، لیکن فتوی امام صاحب کے قول پر ہے۔
درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں جن لوگوں نے مدینہ منورہ سے واپسی پر ذوالحلیفہ سے حج قران کا احرام باندھ لیا تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمرہ کا احرام فسخ کرکے دم دیں، اگر عمرہ کا احرام فسخ نہیں کیا بلکہ عمرہ ادا کرلیا تب بھی ان پر دم واجب ہوگا۔ اور ان کا حج، حج قران نہیں، بلکہ تمتع ہی رہے گا۔ اور حجِ تمتع کا دمِ شکر ان پر واجب ہوگا۔
وکذا لو خرج إلی الآفاق لحاجۃ، فقرن لایکون قارنا عند أبي حنیفۃ رحمہ اﷲ، وعلیہ رفض أحدہما، ولا یبطل تمتعۃ؛ لأن الأصل عندہ أن الخروج في أشہر الحج إلی غیر أہلہ فالإقامۃ بمکۃ فکأنہ لم یخرج ، وقرن من مکۃ الخ۔ (غنیۃ قدیم؍ ۱۱۵، مستفاد: انوار مناسک؍ ۳۰۹، زبدۃ المناسک؍ ۳۰۹)
ولو عاد بعد ما حلّ من عمرتہ إلی غیر أہلہ في موضع لأہلہ التمتع والقران وحج من عامہ ذٰلک کان متمتعاً عند أبي حنیفۃ وصار کأنہ لم یخرج من مکۃ وعندہما لا یکون متمتعاً ویکون لحوقہ بہٰذا الموضع کلحوقہ بأہلہ۔ (الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۲۰۶، غنیۃ الناسک ۲۱۳ جدید)
أما إذا رجع إلی غیر بلدہ کان متمتعًا عند أبي حنیفۃ ویکون کأنہ لم یخرج من مکۃ، وعندہما لا یکون متمتعاً ویکون کأنہ رجع إلی بلدہ ولا فرق عندہما بین أن ینوي الإقامۃ في غیر بلدہ خمسۃ عشر یومًا أو لم ینو۔ (الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۲۰۵)
کوفي قدم العمرۃ في أشہر الحج ففرغ منہا وحلق أو قصر ثم اتخذ بمکۃ أو البصرۃ داراً ثم حجمن عامہ فہو متمتع، اعلم بأن ہٰذہ المسألۃ علی أربعۃ أوجہ: … الوجہ الثالث: إذا خرج من المواقیت وعاد إلی أہلہ ثم حج من عامہ ذٰلک، وفي ہٰذا الوجہ ہو لیس بمتمتع۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۲۹ رقم: ۵۲۰۳ زکریا)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ذی الحجہ 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں