سوال :
کل بروز جمعہ ایک مسجد کے بیان میں مقرر نے مسائل قربانی میں ایک بات کہی جو میں تصدیق کرنا چاہتا ہوں۔
ذبح کرنے کے دوران اگر بطور مدد کسی نے ذبح کرنے والے کا ہاتھ تھاما چاہے قصداً ہو بلاقصد، اس کا بھی "بسم اللہ اللہ اکبر" کہنا ضروری ہے۔ اگر اس نے نہیں پڑھا تو قربانی نہیں ہوگی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بہت سے لوگ شوقیہ یا سکھانے کے لیے چھوٹے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر ذبح کرتے ہیں، یا جانور جاندار ہو تو کوئی اور بھی ذبح والا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : شفیق جمیل حسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور مقرر صاحب کا بیان کردہ مسئلہ اگرچہ مکمل طور پر غلط نہیں ہے، لیکن مکمل طور پر صحیح بھی نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں تفصیل ہے، جس کی وضاحت کے بغیر عوام الناس تشویش میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
ملحوظ رہے کہ ذبح کرنے والے کے ساتھ صرف چھُری یا اس کا ہاتھ پکڑ لینا شرعاً معاون بننا نہیں ہے۔ بلکہ ذبح میں حقیقی طور پر معاون وہ ہے جس کی حیثیت اس درجہ کی ہو کہ ذابح کا کردار اس کے بغیر نامکمل ہو، یہاں تک کہ چُھری ہاتھ میں لے کر ذبح کرنے میں دونوں شریک کار ہوں تو ہر ایک کے لیے اللہ کا نام لینا ضروری ہے اور ہر ایک مستقل ذابح شمار ہوگا۔
ذکر کردہ ضابطے کی روشنی میں دیکھا جائے تو عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ذبح میں معاون عموماً برائے نام ہوتے ہیں، اصل عمل ذبح کرنے والے کا ہی ہوتا ہے، جیسا کہ سوال نامہ میں بچوں کا بھی ذکر ہے۔ لیکن اگر معاون باقاعدہ ایسا ہو جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ وہ بھی ذبح میں برابر کا شریک ہو تب تو اس کا بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ اور اگر وہ قصداً بسم اللہ ترک کردے تو قربانی بھی نہ ہوگی اور نہ ہی جانور حلال ہوگا۔ البتہ اگر بھول کر بسم اللہ چھوڑ دے تو جانور بھی حلال ہوگا اور قربانی بھی درست ہوجائے گی۔
لما قال العلامۃ علاؤ الدین الحصکفیؒ : وفیھا اراد التضحیۃ فوضع یدہ مع ید القضاب فی الذبح واعانہ علی الذبح سمی کل وجوبًا فلو ترکھا احدھما او ظن ان تسمیۃ احدھما تکفی حرمۃ۔ (الدرالمختارعلی صدر ردالمحتار:ج؍۶،ص؍۳۳۴، کتاب الاضحیۃ)
لما قال العلامۃ الفرغانی رحمہ اللّٰہ: رجلٌ اراد ان یضحی فوضع صاحب الشاۃ مع ید القضاب فی الذبح واعانہٗ علی الذبح حتٰی صار ذابحًا مع القصاب۔ قال الشیخ الامام رحمہ اللّٰہ تعالیٰ یجب علی کل واحدٍ منہما التسمیۃ حتٰی لو ترک احدھما التسمیۃ لاتحل الذبیحۃ۔(الفتاویٰ قاضی خان علٰی ھامش الھندیۃ:ج؍۳،ص؍۳۵۵، کتاب الاضحیۃ۔ فصل فی مسائل متفرقۃ/فتاوی حقانیہ)
وتارک تسمیۃ عمداً فان ترکہا ناسیاً حل۔ ( البحر الرائق زکریا ۹؍۳۰۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 ذی الحجہ 1440
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریں